اسلام آباد(نیوزڈیسک)ایک نئی تحقیق کے مطابق کینسر کا مرض لاحق ہونے کے پیچھے بدقسمتی نہیں بلکہ ماحولیاتی عوامل کہیں زیادہ کارفرما ہیں۔رواں سال کے اوائل میں اس دعوے کے بعد کہ دوتہائی کینسروں کی اقسام کے پیچھے بیرونی عوامل مثلاً تمباکو نوشی کے بجائے قسمت کا دخل زیادہ ہے، سائنس دانوں میں ایک بحث کا آغاز ہوگیا تھا۔زیادہ تر سرطانوں کی وجہ ’بری قسمت‘کینسر کے40 فیصد کیسوں کا تعلق طرزِ زندگی سے سائنسی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہونے والی تحقیق میں چار مختلف زاویوں کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ دس سے 30 فیصد کینسروں کی وجہ یا تو جسم کا قدرتی نظام کا طریقہ ہے یعنی ’قسمت‘ ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تجزیہ ’بڑی حد تک قائل‘ کرنے والا ہے۔کینسر کا مرض جسم کے سٹیم سیلز میں پیدا ہونے والی خرابی اور بےقابو تقسیم کے باعث ہوتا ہے۔اس کے پیچھے اندرونی عوامل ہو سکتے ہیں جو جسمانی نظام اور اس کی فعالیت کا حصہ ہیں، مثلاً سٹیم سیل سے نئے سیل بننے کے عمل کے دوران تبدیلیاں عمل میں آتی ہیں جنھیں میوٹیشن یا تقلیب کہا جاتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ بیرونی عوامل بھی ہو سکتے ہیں، جیسے تمباکو نوشی، الٹرا وائلٹ تابکاری، اور دیگر کئی ایسی وجوہات جن کی اب تک شناخت نہیں ہو سکی ہے۔تمباکو نوشی کرنے والا شخص کیا کرتا ہے، وہ مزید دو یا تین گولیاں پستول میں ڈال لیتا ہے۔ اور پھر وہ پستول کا ٹریگر دباتا ہے۔ قسمت کا دخل ہمیں پھر بھی نظر آتا ہے، کیونکہ تمباکو نوشی کرنے والے ہر شخص کو کینسر نہیں ہوتا اور وہ ممکنات میں شامل نہیں ہوتے۔ڈاکٹر یوسف حن ناس موضوع پر جاری بحث میں توجہ کا مرکز یہ اندرونی اور بیرونی عوامل ہیں۔امریکی شہر نیویارک میں واقع سٹونی ب±روک کینسر سینٹر کے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لیے اسے مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں کمپیوٹر ماڈلنگ، لوگوں اور مریضوںکے بارے میں حاصل کردہ معلومات، اور جینیاتی تحقیق شامل ہیں۔ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کینسر کا مرض لاحق ہونے کے پیچھے 70 سے 90 فیصد بیرونی عوامل پائے گئے ہیں۔سٹونی بروک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یوسف حنون نے بی بی سی نیوز کی ویب سائٹ کو بتایا کہ ’بیرونی عوامل بڑا کردار ادا کرتے ہیں، لوگ بدقسمتی کا بہانہ نہیں بنا سکتے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ تمباکو نوشی کریں اور کہیں کہ انھیں کینسر ہونے کے پیچھے بدقسمتی کا عمل دخل ہے۔‘سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج کے مطابق کینسر کا مرض لاحق ہونے کے پیچھے 70 سے 90 فیصد بیرونی عوامل پائے گئے ہیں’یہ ایک پستول کی طرح ہے، جس میں ایک گولی ہونا اس کے اندرونی عوامل میں شامل ہے۔ اور اگر آپ رشین رولیٹ (چیمبر کے ایک خانے میں گولی ڈال کے کھیلنے والے باری باری ٹریگر دبا کر اپنی قسمت آزمانے کا) کھیل رہے ہوں تو ممکن ہے کہ چھ میں سے ایک کو کینسر ہوجائے۔ اس کو بدقسمتی کہا جا سکتا ہے۔‘صحت بخش عادات اپنانا مثلاً تمباکو نوشی سے پرہیز، موزوں وزن، اچھی خوراک کا استعمال، اور الکوحل کا کم سے کم استعمال کینسر سے بچاو¿ کی ضمانت نہیں دیتے۔ تاہم یہ بیماری ہونے کے خطرات کو بڑی حد تک کم ضرور کر دیتے ہیں۔برطانیہ کے کینسر ریسرچ کی ڈاکٹر ایما سمتھڈائریکٹر ڈاکٹر یوسف حنون کہتے ہیں کہ ’عوام کی صحت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہم پستول کے چیمبر سے اتنی گولیاں نکال دینا چاہتے ہیں جتنی نکال سکتے ہیں۔‘تاہم ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ تمام بیرونی عوامل کی نہ تو شناخت ہو سکی ہے اور نہ ہی تمام عوامل سے احتراز برتا جا سکتا ہے۔برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں اطلاقی اعداد و شمار (اپلائیڈ سٹیٹسٹکس) کے پروفیسر کیون میک کونوے کہتے ہیں: وہ اس بات پہ قائل کرنے کے لیے بڑے اچھے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کینسر کی کئی اقسام کے لاحق ہونے کے پیچھے بیرونی عوامل کا بڑی حد تک عمل دخل ہوتا ہے۔ جن میں عام طور پر پائے جانے والی کئی اقسام شامل ہیں۔اگر کوئی شخص اثرانداز ہونے والے اہم بیرونی عوامل کی بہت زیادہ زد میں آتا ہے تو یہ یقینی تو نہیں ہے کہ انھیں کینسر ہو جائے گا، تاہم پھر بھی ممکنات بہرحال موجود رہتے ہیں۔اس تحقیق سے یہ ضرور واضح ہو جاتا ہے کہ اس مرض کو سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کے لیے ہمیں قسمت اور اتفاق پر توجہ دینے کے بجائے اس سے آگے دیکھنا ہوگا۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں