واشنگٹن(نیوزڈیسک)امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی کی گزشتہ روز پریس بریفنگ کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب ترجمان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں فوج کی سیاسی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ وہاں جمہوری منتخب حکومت موجود ہے ۔ اس پرترجمان نے کہاکہ کیا میں نے پاکستانی فوجی رہنماﺅں کو آگے آنے کی منظوری دی ہے؟ اس جواب پرپریس بریفنگ میں موجود صحافیوں کے چہروں پرمسکراہٹ بکھرگئی۔ ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہاکہ بھارت اور پاکستان کواپنے مسائل پر دوطرفہ کام کرنا ہوگا مذاکرات کاسلسلہ جاری رہناچاہیے تاکہ دونوں ملکوں کو درپیش اہم مسائل کاسفارتی حل تلاش کیاجاسکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بات چیت جاری رہے اور اس مقصد کیلئے امریکہ نے دونوں ملکوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ترجمان نے کہاکہ پاکستانی فوجی افسران نے حال ہی میں امریکہ میں اپنے ہم منصب افسران سے ملاقاتیں کی ہیں ہم پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور یہ تعلقات صرف فوج کے ساتھ نہیں بلکہ منتخب حکومت کے ساتھ بھی قائم ہیں۔افغان حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہاکہ افغان حکومت اور صدراشرف غنی مفاہمتی عمل کی قیادت کررہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ مفاہمتی عمل کے ذریعے افغانستان کو مزید محفوظ بنایاجائے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم افغانستان کو ایک محفوظ اورخوشحال ملک دیکھناچاہتے ہیں جو خود اپنے شہریوں کادفاع کرسکے۔ اسلام آباد میں ہونیوالی ملاقاتیں اہم ہیں ۔ افغانستان کے پاکستان سمیت دیگر ہمسایہ ملکوں سے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں اور ہم اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس میں میزبانی پرپاکستان کے شکرگزارہیں۔ترجمان نے کہاکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ابھی بہت آگے جانا ہے اورہمیں بڑی پیشرفت کی ضرورت ہے۔صدراشرف غنی نے اہم اصلاحات کی ہیں اور وہ حکومت کو جوابدہ اورنمائندہ بنانے کیلئے کوشاں ہیں افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کو بھی اپنے شہریوں کے دفاع کیلئے بہت کچھ کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ طالبان ایک بڑا خطرہ ہیں انہوں نے اب بھی قندھار پر حملہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان میں بعض عناصر دہشتگردی جاری رکھنے کاعزم کئے ہوئے ہیں اس طرح افغانستان اب بھی ایک خطرناک جگہ ہے جس پرمزیدکام کی ضرورت ہے۔