ہفتہ‬‮ ، 20 ستمبر‬‮ 2025 

سعودی عرب نے وہ فیصلہ کردیاجس کا”سعودی خواتین “کوانتظارتھا

datetime 3  دسمبر‬‮  2015
JEDDAH, Saudi Arabia - OCTOBER 13: German Foreign Minister Frank-Walter Steinmeier (not pictured) meets Saudi Crown Prince and defense minister Salman bin Abdulaziz al-Saud in Jeddah on October 13, 2014 in Jeddah, Saudi Arabia.(Photo by Thomas Imo/Photothek via Getty Images)
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض(نیوزڈیسک) سعودی عرب میں طلاق کے بڑھتے رجحان کے باعث طلاق یافتہ خواتین کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، لیکن سعودی قوانین کے مطابق کسی بچے کو سکول میں داخل کروانے و دیگر امور کے لیے والد کی منظوری لازمی ہے، جس سے طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب سعودی حکومت نے اس حوالے سے قوانین میں ترامیم کرکے خواتین کو زیادہ بااختیار بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نئے قانون کے تحت مطلقہ یا بیوہ خواتین تمام گھریلو امور مرد کی منظوری کے بغیر سرانجام دے سکیں گی۔سعودی اخبار ”الریاض“ کی رپورٹ کے مطابق اس نئے قانون کے تحت سعودی وزارت داخلہ مردوں کے ساتھ ساتھ مطلقہ اور بیوہ خواتین کو فیملی شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے جس سے ان خواتین کو بھی وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو کسی گھر کے مرد سربراہ کو حاصل ہوتے ہیں۔وہ خواتین ازخود سرکاری ریکارڈ تک رسائی حاصل کر سکیں گی، بچوں کو سکول داخل کروا سکیں گی اور میڈیکل رجسٹریشن و دیگر امور سرانجام دے سکیں گی۔ فی الوقت سعودی عرب میں زیادہ تر گھریلو امور کے قانونی اختیارات مرد کے پاس ہیں اورکوئی بھی عورت طلاق کے بعد بھی ان امور میں اپنے سابق شوہر کی منظوری کی محتاج ہوتی ہے۔اگر سابق شوہر اجازت نہ دے تو خاتون بچوں کا سکول میں داخلہ تک نہیں کروا سکتی۔فیملی کارڈ چونکہ مرد کے پاس ہوتا ہے اس لیے خاتون کو ہر کام کرنے حتیٰ کہ اپنے یا بچوں کے علاج کے لیے ہسپتال جانے کے لیے بھی اپنے سابق شوہر کے پاس منظوری لینے کے لیے جانا پڑتا ہے۔مزید جانئے: سعودی عرب جانے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے انتہائی تشویشناک خبر، حکومت نے نئی شرط عائد کردی دالیا نامی ایک مطلقہ خاتون نے سعودی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں طلاق یافتہ خاتون ہوکر زندگی گزارنا بہت مشکل ہے مگر نیا قانون بہت بڑی تبدیلی لائے گا۔ اس قانون سے تمام قانونی اور ثقافتی مسائل حل ہو جائیں گے۔دالیا ایک بچے کی ماں ہے۔ اسے 5سال قبل اس کے شوہر نے طلاق دے دی تھی اور اب وہ پانچ سال سے اپنے بچے کے ہمراہ جدہ میں رہ رہی ہے۔ دالیا کا کہنا تھا کہ فیملی کارڈ حاصل ہونے سے مطلقہ خواتین کو بھی فیملی کے سربراہ کی حیثیت حاصل ہو جائے گی اور انہیں طلاق کے بعد بھی بار بار اپنے سابق شوہر کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔



کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…