پیرس(نیوزڈیسک)فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ ان کا ملک نام نہاد شدت پسند تنطیم دولت اسلامیہ نامی کے خلاف عراق اور شام میں فضائی حملے تیز کر رہا ہے۔برطانوی وزیر اعظم ڈیویڈ کیمرون کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ فرانس کا طیارہ بردار جہاز چارلس ڈی گال دولتِ سالامیہ کے خلاف فوجی کارروائی میں حصہ لے گا۔برطانوی وزی اعظم اور فرانس کے صدر نے دونوں ملکوں میں انسداد دہشت گردی کے لیے تعاون بڑھانے اور اس بارے میں فضائی کمپنیوں کے ریکارڈ اور دیگر ڈیٹا کے تبادلے پر اتفاق کیا۔فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا:’ہم اپنے حملے تیز کریں گے، اس میں ایسے ہداف کا انتخاب کیا جائے گا جس سے دہشت گردوں کی فوج کو ہر ممکن نقصان پہنچے۔‘برطانیہ کے وزیراعظم ڈیویڈ کیمرون نے نے اس موقعے پر فرانسیسی صدر کے دولتِ اسلامیہ کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میرا پختہ یقین ہے کہ یہ ایسا ہمیں کرنا چاہیے۔‘نام نہاد تنظیم دولت اسلامیہ نے پیرس پر حملوں کی ذمہ داری قبول تھی اور اس حملے میں 130 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔دریں اثنا بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں مسلسل تیسرے دن بھی سکیورٹی ’ریڈ الرٹ‘ پر ہے۔سکیورٹی ادارے پیرس میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث صلاح عبدالسلام کو تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔بیلجیئم میں حکام کا کہنا ہے کہ پولیس نے مشتبہ افراد کے خلاف آپریشن کے دوران 16 افراد کو گرفتار کیا ہے تاہم ان میں پیرس حملوں میں مبینہ طور پر ملوث شدت پسند صالح عبدالسلام شامل نہیں۔اتوار کو میڈیا بریفنگ کے دوران بیلجیئن پراسیکیوٹر ایرک وین ڈر سپٹ نے بتایا کہ 19 سرچ آپریشن برسلز میں جبکہ مزید تین شارلروا شہر میں کیے گئے۔اس سے پہلے جمعے کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متقفہ طور پر منظور کی جانے والے ایک قرارداد میں تمام ممالک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔
یہ قرارداد فرانس کی جانب سے پیرس حملوں کے بعد سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تھی۔
اس قرارداد میں عراق اور شام میں سرگرم دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کو مربوط انداز میں دوگنا کرنے کا کہا گیا ہے۔قرارداد میں دولتِ اسلامیہ کو دنیا کے امن و سکیورٹی کے لیے ایک غیر معمولی عالمی خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
فرانس کا دولتِ اسلامیہ پر حملے تیز کرنے کا اعلان
23
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں