لندن۔۔۔۔برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے فوج کے جوان افسروں کو یاد دلایا ہے کہ انھیں اپنے سینیئر افسران کو سلیوٹ کرنا چاہیے۔ تاہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیوٹ کر کے خوش آمدید کہنے کی روایت آئی کہاں سے؟
بی بی سی کے جسٹن پارکنسن کے مطابق سلیوٹ کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز رومیوں کے دور میں ہوا تھا، لیکن ہمیں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ رومی فوجی ایک دوسرے کو خوش آمدید کہنے کے لیے سلیوٹ کیا کرتے تھے۔کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا آغاز یورپ میں قرون وسطیٰ میں دوران جنگ ہوا اور جب کوئی فوجی دور سے اپنی آہنی ٹوپی یا ہیلمٹ لہراتا تھا تو اس کا مطلب ہوتا تھا کہ تمہیں مجھ سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ میں تمہارا دوست ہوں۔ پہلے نظریے کی طرح اس خیال کو بھی شک کی نظر سے دیکھا جاتا۔جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ قرون وسطیٰ کے بعد برطانوی فوج میں یہ روایت داخل ہو چکی تھی کہ فوج کا غیر فوجی عملہ اور نان کمیشنڈ فوجی اپنے افسران کا استقبال کرنے کے لیے اپنا ہیٹ اتار لیتے تھے۔ اسی طرح جونیئر افسران بھی اپنے سینیئرز کے احترام میں اپنے ہیٹ اتار لیتے تھے۔تاہم لگتا ہے کہ ہیٹ اتارنے کی یہ روایت بھی 18ویں صدی میں ختم کر دی گئی تھی کیونکہ بار بار ہیٹ اتارنے سے ہیٹ خراب ہو جاتے تھے اور جلدی پھٹ جاتے تھے۔سنہ 1745 کے فوجی قوائد کی کتاب کے مطابق ’جوانوں کو حکم ہے کہ جب وہ اپنے افسر کے پاس سے گزریں یا ان سے بات کریں تو اپنی ٹوپی نہ اتاریں، بلکہ انھیں چاہیے کہ وہ اپنی ٹوپی پر صرف ہاتھ لگائیں اور افسر کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے سر کو جنبش دیں۔‘
ملکہ کے کمیشن کا احترام
فوج میں سلیوٹ کرتے ہوئے فوجی جوان دراصل ملکہ کی جانب سے دیے گئے کمیشن اور اپنے افسر کے سینیئر ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔ سائمن لیمب کے مطابق اسی طرح سینیئر افسر کے لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ سلیوٹ کا جواب سلیوٹ سے دیکر اس بات کا اعتراف کرے کہ وہ اس تکریم کا معترف ہے۔
فوج میں اپنی پوری ہتھیلی پیشانی کے سامنے رکھ کے سلیوٹ کرنے کی روایت کا آغاز برطانوی بری فوج نے کیا اور یہی روایت شاہی بحریہ نے بھی اپنائی، تاہم شاہی بحریہ کے جوان افسران کو سلیوٹ کرتے وقت اپنی ہتھیلی کو نیچے کی جانب رکھتے تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بحری جہازوں پر جوانوں کے ہاتھ گندے ہو جاتے تھے اور افسران کو اپنی گندی ہتھیلیاں دکھانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔
جنگ عظیم اور دیگر بڑی جنگوں میں خدمات سرانجام دینے والے ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم ’برٹش ویٹرن ریکیگنیشن گروپ‘ سے منسلک سائمن لیمب کہتے ہیں کہ فوج میں سلیوٹ کرتے ہوئے فوجی جوان دراصل ملکہ کی جانب سے دیے گئے کمیشن اور اپنے افسر کے سینیئر ہونے کا اعتراف کرتا ہے۔
سائمن لیمب کے مطابق اسی طرح سینیئر افسر کے لیے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ سلیوٹ کا جواب سلیوٹ سے دیکر اس بات کا اعتراف کرے کہ وہ اس تکریم کا معترف ہے جس کا اظہار جوان کر رہا ہے۔
برطانیہ کی شاہی بحریہ کے سلیوٹ کرنے کے انداز کو بعد میں کہا جاتا ہے کہ امریکی فوج نے بھی اپنایا اور امریکی فوجی بھی ہتیھلی نیچے رکھتے ہوئے سلیوٹ کرنے لگے۔
ادب آداب بہت اہم ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گذشتہ برس ستمبر میں صدر اوباما کو اس وقت تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑتا جب انھوں نے ہیلی کاپٹر سے اترنے پر بحریہ کے افسر کے سلیوٹ کا جواب اسی ہاتھ سے دے دیا جس میں انھوں نے کافی کا مگ پکڑا ہوا تھا۔ امریکہ کے کوسٹ گارڈ سے منسلک ایک افسر کے بقول ’یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک بْرے اور نیم دلانہ سلیوٹ سے بہتر ہے آپ سلیوٹ ہی نہ کریں۔‘
جب سے برطانوی فوج ایسی کارروائیوں میں زیادہ حصہ لینا شروع ہوئی ہے جہاں بری فوج، بحریہ اور فضائیہ کے فوجیوں کو اکٹھے کارروائیاں کرنی پڑتی ہیں، نوجوان افسران اکثر مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ان کے لیے کس افسر کو سلیوٹ کرنا ضروری ہے اور کسے نہیں۔
اسی مخمصے کے پیش نظر وزارتِ دفاع نے ایک جدول یا چارٹ شائع کیا ہے جس میں تینوں افواج کے افسران کے مختلف رینکوں کی تصویری وضاحت کی گئی ہے۔
اس چارٹ کی اشاعت کے ساتھ یہ وضاحت دی گئی ہے کہ ’ ہر جوان کو پوری طرح معلوم ہے کہ اپنی فوج میں اسے کس کو سلیوٹ کرنا ہے کیونکہ اسے یہ چیز پہلے دن سے بار بار بتائی جاتی ہے، تاہم جب مختلف اقسام کی فوجیں اکٹھے کام کر رہی ہوتی ہیں تو جوانوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ انھیں کس کو سلیوٹ کرنا ہے اور کسے نہیں۔‘
سلیوٹ کر نے کا آغاز کیسے ہو ا، ایک حیرت انگیز اور دلچسپ انکشا ف،پڑھنے کیلئے کلک کریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں