میں آدھی دنیا کے سفر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں‘ دنیا میں شہر صرف تین ہی ہیں‘ استنبول‘ تبلسی اور پیرس‘ باقی تمام خیمے ہیں‘ گاﺅں ہیں اور کنکریٹ کے غار ہیں‘ مجھے 54 بار پیرس جانے کا موقع ملا‘ میرا تقریباً ہر سفر پیرس سے شروع ہوتا ہے‘ میں پہلے پیرس جاتا ہوں‘ کم از کم ایک رات اس شہر میں گزارتا ہوں اور پھر اگلی صبح اگلی منزل کےلئے روانہ ہو جاتا ہوں‘ میں یہ شہر پیدل گھوم چکا ہوں‘ میں اکثر اوقات بیل ویل سے واک کرتا ہوا پیگال کی مقدس پہاڑی ماﺅنٹ مارنزے کے مقدس چرچ تک چلا جاتا ہوں‘ یہ چرچ دنیا کے قدیم ترین کلیساﺅں میں شمار ہوتا ہے‘ آپ جوں ہی چرچ کا دروازہ عبور کرتے ہیں تو گزرے ہوئے زمانوں کی باس آپ کے لبادے سے لپٹ جاتی ہے‘ چرچ کی سیڑھیاں زمین سے افق اور دائیں سے بائیں تک پھیلے وسیع تھیٹر کی نشستیں ہیں‘ آپ سیڑھیوں پر بیٹھ جائیں تو پورا شہر آپ کے قدموں میں بکھر جاتا ہے‘ یہ منظر دنیا کے قیمتی ترین مناظر میں شمار ہوتا ہے‘ آپ دھوپ میں بیٹھے ہیں اور پورا شہر ایک وسیع پینٹنگ بن کر آپ کے سامنے بکھرا ہے‘ آپ یہ منظر اگر صبح یا شام کے وقت دیکھیں تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کےلئے آپ کی یاد بن جائے گا‘ سنہری یاد‘ چرچ کے گرد پتھریلی گلیاں ہیں‘ ان گلیوں میں دنیا بھر کے مصور دن رات تصویریں بنانے میں مگن رہتے ہیں‘ ہر مصور کمال اور ان کی ہر تصویر شاندار ہوتی ہے‘ گھر قدیم اور مہنگے ہیں‘ اس پہاڑ پر انگور کی وہ بیلیں بھی ہیں جن سے کشید کی جانے والی رطوبت کو دنیا نے فرنچ وائین کا نام دیا‘ مقدس پہاڑی پر دو دو سال پرانے ریستوران‘ کیفے اور پب بھی موجود ہیں‘ ہر ریستوران‘ ہر کیفے کی ایک تاریخ ہے اور یہ تاریخ سیاحوں کو مبہوت کر دیتی ہے‘ ان میں ایک ایسا کیفے بھی شامل ہے جس میں فرش سے لے کر چھت تک لاکھوں چٹیں چپکی ہیں‘ یہ کاغذی چٹیں صرف کاغذی پرزے نہیں ہیں‘ یہ بچھڑے ہوئے ساتھیوں کے ایک دوسرے کے نام پیغامات بھی ہیں‘ کیفے کی ہر چٹ محبت کی لازوال داستان ہے‘ آپ اگر یہ چٹیں ہی پڑھنا شروع کر دیں تو شاید آپ کی پوری عمر گزر جائے۔
میں بیسیوں مرتبہ دنیا کے سب سے بڑے عجائب گھر لور میوزیم سے آرچ ڈی ٹرمف تک پیدل گیا‘ پوری شانزے لیزے اس سفر کے درمیان آتی ہے‘ شانزے لیزے کے گرد درجنوں گلیاں ہیں اور میں درجنوں مرتبہ ان گلیوں میں گھوما پھرا ہوں‘ شانزے لیزے کی ہر عمارت ایک تاریخ ہے اور آپ جب تک اس تاریخ کو سامنے کھڑے ہو کر نہ دیکھیں‘ آپ اس وقت تک اس تاریخ کو نہیں سمجھ سکتے‘ شانزے لیزے پر فوکٹ کیفے بھی ہے‘ یہ کافی شاپ ایک سو پچیس سال قبل بنی‘ فوکٹ نے سوا سو سال کے دوران پیرس میں برپا ہونے والے تمام انقلاب کھلی آنکھوں سے دیکھے‘ یہ کافی شاپ بھی ایک تاریخ ہے‘ دنیا کا شاید ہی کوئی حکمران‘ کوئی سلیبریٹی ہو گا جو پیرس آیا ہو اور اس نے اس کافی شاپ کو شرف نہ بخشا ہو‘ آپ جب بھی وہاں جائیں گے‘ آپ کو وہاں کسی نہ کسی میز کے گرد سیکورٹی کے لوگ ٹہلتے نظر آئیں گے یا پھر کسی میز پر بیٹھ کر کسی قریب ترین میز کا جائزہ لے رہے ہوں گے‘ آپ کو کافی شاپ کی دیواروں پر دنیا کے ان تمام نامور لوگوں کی تصویریں بھی ملیں گی جنہوں نے اس عمارت میں قدم رنجہ فرمایا تھا‘ دنیا کا مشہور ترین شو ”لیڈو“ فوکٹ سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے‘ یہ سرکس اور تھیٹر کا مکسچر ہے اور یہ دیکھنے والوں کو اس فینٹسی میں لے جاتا ہے جس کو لوگ خوابوں میں محسوس کرتے ہیں یا پھر فلموں میں دیکھتے ہیں‘ لیڈو پیرس کا دوسرا بڑا شو ہے‘ پہلا شو ”مولن روچ“ ہے‘ یہ دنیا کا قدیم ترین شو ہے‘ یہ بھی 126 سال سے چل رہا ہے‘ یہ قدیم شو ہے جبکہ لیڈو ماڈرن ہے‘ مولن روچ پیگال کے علاقے میں ہے‘ اس کی نشانی اس کی ونڈمل جیسی وسیع عمارت ہے‘ میں درجنوں مرتبہ پیرس کے ”کیفے ڈی فلورا“ بھی گیا‘ یہ کافی شاپ 1880ءمیں بنی تھی‘ سارتر اور ارنسٹ ہیمنگوے جیسے لوگ روزانہ یہاں بیٹھتے تھے‘ ان کی کرسیاں آج بھی کافی شاپ میں موجود ہیں‘ آپ ان کی نشستوں پر بیٹھ کر گئے زمانے کو محسوس کر سکتے ہیں‘ شانزے لیزے کے ایک سرے پر لور میوزیم کے سائے میں فرعون کے محل کا ستون بھی ایستادہ ہے‘ یہ ستون ”کنکورڈ“ کہلاتا ہے‘ یہ پتھر کا طویل ستون ہے جس پر آج بھی قدیم زبان میں فرعون کے فرمودات لکھے ہیں‘ میں نے 1996ءمیں گائیڈ کے منہ سے سنا‘ یہ ستون مصر کے قدیم شہر ”لک سر“ سے پیرس لایا گیا‘اس کے ساتھی ستون آج بھی لکسر کے آثار قدیمہ میں موجود ہیں اور میں کنکورڈ کے ساتھیوں کی تلاش میں مصر پہنچ گیا‘ میں نے جب تک کنکورڈ کے ساتھیوں تک اس کا سلام نہ پہنچا لیا مجھے آرام نہ آیا‘ پیرس کے اوپیرا ہاﺅس جیسا کوئی دوسرا اوپیرا بھی نہیں‘ آپ نے فلموں میں پیرس اوپیرا ہاﺅس کے مناظر دیکھے ہوں گے‘ لوگ یہ اوپیرا دیکھنے کےلئے اپنا شاندار ترین لباس پہن کر یہاں آتے ہیں‘ آپ نوٹرڈیم کے قدیم چرچ میں داخل ہوں تو آپ کو اس کی فضا میں وکٹرہیوگو کی خوشبو بھی محسوس ہو گی اور کبڑے عاشق کا سوز عشق بھی۔ ہیوگو کا ناول بھی کمال تھا اور اس ناول پر بننے والی فلم ”ہنچ بیک آف نوٹر ڈیم“ بھی۔ فلم میں انتھونی کوئین کی اداکاری لیجنڈ بن چکی ہے‘ میں بیسیوں مرتبہ اس چرچ میں بھی گیا اور اس کے اردگرد موجود ہوٹلوں اور ریستورانوں میں زندگی کی بہترین شامیں بھی گزاریں۔
دنیا کے ہر بڑے شہر میں دریا بہتا ہے لیکن پیرس کے دریائے سین جیسا کوئی دوسرا دریا نہیں‘ یہ دریا‘ دریا نہیں عجوبہ ہے‘ کیوں؟ کیونکہ اس کے دونوں کناروں پر عجوبے ہیں‘ آئفل ٹاور بھی اسی دریا کے کنارے ہے‘ آپ دریائے سین میں فیری لیں اور جہاز کے عرشے پر کھڑے ہو کر آئفل ٹاور کی روشنیوں کو جلتے بجھتے دیکھیں‘ مجسمہ آزادی امریکا کی پہچان ہے‘ یہ مجسمہ پیرس میں ہوتا تھا‘ یہ بھی دریائے سین کے کنارے ایستادہ تھا‘ امریکا نے 1886ءمیں فرانس کو آپشن دیا‘ آپ تحفے میں ہمیں آئفل ٹاور دے دیں یا پھر مجسمہ آزادی‘ پیرس کے لوگوں نے مجسمے کی قربانی دے دی اور آئفل ٹاور بچا لیا‘ آپ چاند کی چودہویں رات کو دریائے سین کے کنارے واک کریں‘ یہ واک آپ کی زندگی کی یاد گار ترین چہل قدمی ثابت ہو گی‘ میری بے شمار راتیں دریائے سین کے کنارے گزریں‘ رات کے پچھلے پہر جب کوئی پرائیویٹ بوٹ سناٹے کو توڑتی ہوئی سین سے گزرتی ہے تو یہ منظر تصویر بن کر ذہن پر نقش ہو جاتا ہے‘ پیرس کے مضافات بھی عجیب دنیا ہیں‘ آپ یورو ڈزنی چلے جائیں‘ یورو ڈزنی کے اردگرد چھوٹے چھوٹے گاﺅں ہیں‘ یہ گاﺅں فلمی ہیں‘ یہ گاﺅں فلمی سین بن کر زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں‘ آپ نے گیونچی کا نام سنا ہو گا‘ یہ پرفیوم کا نام ہے‘ یہ پرفیوم آپ کی میز پر بھی ہو گا لیکن گیونچی فرانس کے ایک گاﺅں کا نام ہے‘ یہ گاﺅں پیرس سے لندن جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے‘ اس گاﺅں میں لاہور کے سینکڑوں لوگوں کی قبریں ہیں‘ یہ لاہوریئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہوئے‘ گیونچی پہنچے اور یہاں پیوند خاک ہو گئے‘ لاہوریوں کی ایک پوری ڈویژن بیلجیئم میں بھی دفن ہے‘ آپ کو وہاں لاہوریوں کی ہزاروں قبریں ملتی ہیں‘ ماﺅنٹ بلینک بھی صرف برانڈ نہیں ہے‘ یہ پہاڑ ہے اور اس پہاڑ کے گرد شامونی جیسے خوبصورت گاﺅں بھی آباد ہیں‘ ایوئن فرانس کی منرل واٹر کی مشہور کمپنی ہے‘ ایوئن بھی صرف برانڈ کا نام نہیں‘ یہ بھی ایک گاﺅں ہے اور یہ منرل واٹر اسی گاﺅں سے حاصل کیا جاتا ہے‘ شمپیئن ایک شراب ہے‘ یہ تقریبات کی شراب ہے‘ آپ فلموں میں اکثر اوقات پارٹیوں میں شمپیئن کی بوتلیں کھلتے دیکھتے ہیں‘ شمپیئن بھی فرانس کے ایک گاﺅں کا نام ہے‘ شمپیئن گاﺅں میں بننے والی شراب آہستہ آہستہ شمپیئن نام کا برانڈ بن گیا‘ فرانس کا ایک علاقہ ”پرفیوم ڈسٹرکٹ“ کہلاتا ہے‘ آپ اگر پیرس سے نیس کی طرف جائیں تو نیس سے پہلے پرفیوم ڈسٹرکٹ آئے گا‘ پرفیوم ڈسٹرکٹ میں ہزاروں ایکڑ پر وہ پھول اور پودے اگائے جاتے ہیں جن کی خوشبوئیں ہر سال دنیا بھر سے اربوں ڈالر سمیٹتی ہیں‘ فرانس کے زیادہ تر پرفیومز یہاں بنتے ہیں اور آپ نیس بھی ضرور جائیں‘ یہ یورپ کے ان چند شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں سال میں تین سو دن سورج نکلتا ہے اور کین شہر نیس کی بغل میں ہے‘ کین یا کان کا فلمی میلہ پوری دنیا میں مشہور ہے چنانچہ دیکھا جائے تو فرانس ادب‘ مصوری‘ موسیقی‘ فیشن‘ تھیٹر‘ پرفیومز‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کا ملک ہے اور پیرس آرٹ اور کلچر کی اس دنیا کا دارالحکومت۔
پیرس کے لوگ بھی باکمال ہیں‘ یہ کھانستے بھی ایک دلربائی کے ساتھ ہیں‘ آپ کے سامنے ہزاروں لوگ چل رہے ہوں تو آپ صرف چال سے پیرس کے شہریوں کو پہچان لیں گے‘ فرنچ اور عربی دنیا کی دو واحد زبانیں ہیں جن میں ابہام نہیں‘ جن کا ہر لفظ وہی معانی دیتا ہے جو بولنے یا لکھنے والا بتانا چاہتا ہے‘ آپ‘ آپ کا لباس یا آپ کا کھانا اگر پیرس کے لوگوں کو پسند نہیں آتا تو یہ کبھی اس کا اظہار نہیں کریں گے‘ یہ آپ سے مسکرا کر ملیں گے‘ آپ کا شکریہ ادا کریں گے‘ آپ سے رخصت ہوں گے اور پھر آپ سے دوبارہ نہیں ملیں گے‘ فرعون مصر میں پیدا ہوئے اور مصر ہی میں مرے لیکن ان کی حنوط شدہ لاشیں آپ کو پیرس میں ملیں گی‘ لیونارڈو ڈاونچی اور مائیکل اینجلو اٹلی میں پیدا ہوئے لیکن ان کے فن پارے آپ کو پیرس میں ملیں گے‘ وینس دیوی کا مجسمہ ڈی میلو میں بنا‘ یہ مجسمہ دیوی نے خود کو مجسمہ ساز کے سامنے آشکار کر کے اپنی نگرانی میں بنوایا لیکن یہ مجسمہ بھی آپ کو پیرس ہی میں ملے گا‘ پیرس آرٹ ہے‘ پیرس کلچر ہے‘ پیرس تفریح ہے اور پیرس دنیا کی حس جمال ہے‘ یہ حس جمال‘ یہ تفریح‘ یہ کلچر اور یہ آرٹ 14 نومبر کو دہشت گردوں کا نشانہ بنا‘ پیرس پر حملوں نے پوری دنیا کے ”آرٹ لورز“ کو زخمی کر دیا‘ ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے لیکن پیرس کی گلیوں میں بہنے والا خون دو انسانیت کے قتل کے برابر ہے‘ پہلا انسانیت کا قتل اور دوسرا انسانوں کے آرٹ اور کلچر کا قتل۔ انسانیت کے زخم تو بھر جائیں گے لیکن کلچر اور آرٹ کے جسم پر لگی ضربیں شاید کبھی نہ مٹ سکیں چنانچہ انسانوں اور دنیا بھر کے انسانی کلچر سے محبت کرنے والے اربوں لوگ پیرس کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں‘ دنیا کا ہر وہ شخص اس وقت فرانس کے ساتھ کھڑا ہے جو تہذیب کو مذہب جتنی تکریم دیتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ وہ سمجھتا ہے جس طرح آرٹ کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتے بالکل اسی طرح پیرس کے بغیر آرٹ بھی ادھورا رہ جاتا ہے اور کلچر بھی۔
فار پیرس ود لو
20
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں