جمعرات‬‮ ، 28 اگست‬‮ 2025 

عام بیماریاں ایک مرتبہ پھر جان لیوا بن جائیں گی

datetime 17  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جینیوا(نیوز ڈیسک) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت دنیا بھر میں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جبکہ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس سے مسائل بڑھنے کا خدشہ ہے۔یہ مزاحمت اس وقت جنم لیتی ہے جب جراثیم (بگس) پرانی ادویات کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرلیتے ہیں جس کے باعث عام بیماریاں اور انفکشنز بھی جان لیوا بن جاتے ہیں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ عمل قدرتی طور پر بھی ہوتا ہے تاہم ان ادویات کا بےجا استعمال مزاحمت کے اس عمل کو تیز کردیتی ہے۔عالمی ادارے کے مطابق اس سلسلے میں بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس سے پیچیدگیاں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ڈبلیو ایچ او سربراہ مارگرٹ چن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت صحت کا ایک عالمی بحران ہے، متعدد حکومتیں اب اسے ایک بڑے مسئلے کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ہسپتال اور انتہائی نگہداشت یونٹس ‘سپر بگس’ کے مسئلے سے دوچار ہیں جبکہ ہم اب اینٹی بائیوٹکس کے بعد کی دہائی کی طرف جارہے ہیں جہاں عام بیماریاں ایک مرتبہ پھر جان لیوا بن جائیں گی۔اینٹی بائیوٹکس قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں جبکہ کینسر کے مریض یا کسی سرجری سے گزرنے والے مریضوں پر انہیں عام استعمال کی جاتا ہے تاہم مارگریٹ کا کہنا تھا کہ اگر اس مزاحمت کے خلاف کچھ نہ کیا گیا تو جدید طریقہ علاج کا خاتمہ ہوجائے گا۔12 ممالک میں کیے گئے ڈبلیو ایچ او کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ دو تہائی (64 فیصد) افراد اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اینٹی بائیوٹکس کو نزلہ اور زکام کے خلاف استعمال کیا جاسکتا حالانکہ درحقیقت ان کا وائرسس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔باربیڈوس، مصر، چین، ہندوستان، انڈونیشیا، میکسیکو، نائجیریا، روس، سربیا، جنوبی افریقہ، سوڈان اور ویتنام میں کیے گئے سروے میں 66 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ اینٹی بائیوٹکس مزاحمت سے لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں۔جبکہ تقریباً نصف کا خیال تھا کہ یہ مسئلہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اینٹی بائیوٹکس کا استعمال باقاعدگی سے کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت کسی بھی عمر، کہیں بھی اور کسی کو بھی ہوسکتی ہے۔سروے میں ایک تہائی کا خیال تھا کہ طبیعت بہتر ہونے کے بعد اینٹی بائیوٹکس کا استعمال روک دینا چاہیے اور کورس کو مکمل کرنے کی ضرورت نہیں۔مارگریٹ کے مطابق یہ ایک خطرناک غلط فہمی ہے کیوں کہ علاج کو مکمل نہ کرنے سے مزاحمت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ مریض کا علاج بھی متاثر ہوتا ہے۔مارگریٹ نے کہا کہ کورس کو درمیان میں کبھی نہ روکیں اور اسے لازماً مکمل کریں۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کا استعمال صرف اسی صورت میں کیا جائے جبکہ انہوں نے ڈاکٹروں پر بھی زور دیا کہ وہ اینٹی بائیوٹکس دینے میں احتیاط برتیں اور اسے ایک ‘قیمتی شے’ کے طور پر دیکھا جائے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



سنت یہ بھی ہے


ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…