لندن۔۔۔دنیا میں سب سے زیادہ ممالک میں جو چیز پیدا کی جاتی ہے اور کھائی جاتی ہے وہ ہے پیاز لیکن جسے دیکھو وہ دوسری سبزیوں کے صدقے واری جاتا ہے مگر پیاز کی کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ بی بی سی کے میرک پرزوِک کہتے ہیں کہ وقت آگیا ہے ہم یہ کہنا بند کریں کہ پیاز کڑوا ہوتا ہے، اسے کاٹتے ہوئے ہماری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ، بلکہ ہمیں کہنا چاہیے ’پیاز زندہ باد‘۔
’امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں محفوظ قدیم بابْل تہذیب کے نوادرات میں سرخ مٹی کی تین تختیاں بھی شامل ہیں جن کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ان پر دنیا کی قدیم ترین کھانے کی ترکیبیں لکھی ہوئی ہیں۔
ان تختیوں پر موجود نہایت باریک تحریر میں کیا لکھا ہوا ہے، یہ راز اس تحریر کے لکھے جانے کے چار ہزار سال بعد سنہ 1985 میں ایک فرانسیسی نے افشا کیا۔کہنے کو تو ڑان بوٹیرو آثارِ قدیمہ کے ماہر ہیں لیکن ان کی دوسری بڑی شہرت یہ بھی ہے کہ وہ نہ صرف بہت اچھے پکوان بناتے ہیں بلکہ کئی پکوانوں کے بانی بھی سمجھے جاتے ہیں۔ڑان بوٹیرو کہتے ہیں کہ انھوں نے میسوپوٹیمیا (موجودہ عراق) کی قدیم بابْلی تہذیب کی تختیوں کو جب غور سے پڑھا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان پر ’نہایت ذائقے دار کھانوں کی ترکیبیں لکھی ہوئی تھیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قدیم دور میں بھی کھانا بنانے کو ایک فن کی حیثیت حاصل تھی۔‘ ڑان بوٹیرو کے بقول ان تحریروں میں ایک ذائقے کا ذکر بہت ملتا ہے۔یہ راز اس تحریر کے لکھے جانے کے چار ہزار سال بعد سنہ 1985 میں ایک فرانسیسی نے افشا کیا۔’لگتا ہے کہ پیاز برادری کی تمام سبزیوں کے ذائقے ان لوگوں کے دماغ پر سوار تھے۔‘میسو پوٹیمیا کے لوگ نہ صرف پیاز سے بہت اچھی طرح واقف تھے، بلکہ اس برادری کے دوسرے ذائقوں، مثلاً لہسن، لِیک (گندنا، کرات) اور شیلٹ یا ہرے پیاز کا بھی خوب استعمال کر رہے تھے۔اس بیچاری سبزی کی افادیت اور اس کی تعریف کے پْل تہذیبِ بابل کے بعد کے ادوار کے لوگوں نے بھی باندھے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان ادوار کی کھانے کی شاید ہی کوئی ایسی ترکیب ہو جس میں آپ کو پیاز کا ذکر نہ ملے۔پیاز ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو ہر ملک میں ملے گی۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا کے کم از کم 175 ممالک ایسے ہی جہاں پیاز کی فصل کاشت کی جاتی ہے، یعنی پیاز پیدا کرنے والے ممالک کی تعداد ان ممالک سے تقریباً دْگنی ہے جہاں گندم کاشت کی جاتی ہے۔ وزن کے اعتبار سے دنیا میں سب سے زیادہ کاشت کی جانے والی چیز پیاز ہی ہے۔گندم کے برعکس، پیاز دنیا کے تقریباً ہر بڑے پکوان کا لازمی حصہ ہے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہے کہ پیاز دنیا بھر کے کھانوں میں استعمال ہونے والا سب سے بڑا جزو ہے۔پیاز کے موروثی اجزا پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز وسطی ایشیا سے ہوا،خوراک کی تاریخ کی ماہر لارا کیلی کہتی ہیں کہ ’پیاز کے موروثی اجزا پر تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز وسطی ایشیا سے ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ میسوپوٹیمیا کی عظیم تہذیب کے عروج سے بہت عرصہ پہلے ہی لوگ پیاز کھا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ہمیں ایسے ثبوت بھی ملے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں بھی پیاز صدیوں سے کھائی جا رہی ہے۔‘’پیاز کا پھول بہت خوبصورت ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ لوگ پہلے پہل پیاز کی جانب اس کی خوبصورتی کی وجہ سے متوجہ ہوئے اور پھر جب انھوں نے اسے کھا کر دیکھا تو انھیں معلوم ہوا کہ اس میں غذائی افادیت بھی بہت ہے۔ اس طرح پیاز کی کامیابی میں اس بات کا بھی بہت امکان دکھائی دیتا ہے کہ اسے کاشت کرنا بہت آسان ہے اور پیاز کے پودے کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے بھی کوئی تردّد نہیں کرنا پڑتا۔‘لارا کیلی کے بقول اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخی شاہراہِ ریشم کے راستے پیاز کی تجارت دو ہزار سال قبلِ مسیح میں بھی ہو رہی تھی۔ یہ وہی وقت ہے جب میسوپوٹیمیا میں پکوانوں کی ترکیبیں تختیوں پر لکھی جا رہی تھیں۔لارا کیلی کہتی ہیں کہ انھوں نے تہذیب بابْل کی کھانے کی ترکیبوں کو سامنے رکھ کے کھانے پکائے بھی ہیں۔ ان میں ایک کھانے کی ترکیب کے اجزا کی فہرست کچھ یوں ہے: مرغی یا کسی دوسرے پرندے کا گوشت، پانی، دودھ، نمک، چربی، دار چینی، سبز رائی، ہرا پیاز، سوجی، لِیک، لہسن، آٹا، نمکین پانی (شورا)، سویا کے دانے، پودینہ اور جنگلی نرگس۔لیبیا میں سنہ 2011 میں اوسطاً ہر شخص نے 33.6 کلوگرام پیاز کھائی۔دو ہزار سال قبلِ مسیح کے برعکس آج کل عالمی سطح پر پیاز کی تجارت بہت کم ہو رہی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک میں پیداوار کا 90 فیصد اسی ملک میں استعمال ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم گندم اور دیگر اجناس کی تجارت کی بات کرتے ہیں تو پیاز کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔
دو بڑے ممالک جو پیاز کی پیداوار اور اس کی کھپت کے حوالے سے سرفہرت ہیں، وہ چین اور بھارت ہیں۔ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی سات کروڑ ٹن پیاز کا 45 فیصد ان دو ممالک میں پیدا ہوتا ہے۔
تاہم اگر فی کس کھپت کو سامنے رکھا جائے تو ان دونوں ملکوں کا شمار ان دس ممالک میں نہیں ہوتا جہاں پیاز کی کھپت سب سے زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر پیاز کھانے میں پہلا نمبر لیبیا کا ہے جہاں اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2011 میں اوسطاً ہر شخص نے 33.6 کلوگرام پیاز کھائی۔لبیا سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ’ہم ہر چیز پیاز کے ساتھ پکاتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پیاز والی میکرونی یا سویاں ہمارا قومی پکوان ہے۔‘لارا کیلی کہتی ہیں کے مغربی افریقہ کے کئی دوسرے ممالک میں بھی لوگ بہت پیاز کھاتے ہیں، تام ان ممالک کا نام اقوام متحدہ کی فہرست میں شامل نہیں۔
’مثلاً سینیگال میں لوگ یاسا نامی پکوان بہت شوق سے کھاتے ہیں جس میں ذرا سا گوشت یا سبزی ہوتی ہے اور بہت سی پیاز۔ اس کھانے میں پیاز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں آپ نے پیاز میں پیاز پکائی ہوئی ہے۔‘دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں پیاز کی خبریں شہ سرخیوں میں بھی رہتی ہے اور وہ ملک بھارت ہے۔ بھارت میں اگر پیاز کی قیمتیں تیزی سے اوپر چلی جائیں تو سمجھیں حکومت کی شامت آ گئی۔اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے صرف ایک ماہ کے اندر وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو پیاز کی برآمد پر پابندی لگانا پڑی گئی تھی کیونکہ حکومت کو خوف تھا کہ پیاز کی بڑے پیمانے پر برآمد سے ملک میں اس کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور لوگ حکومت سے ناخوش ہو جائیں گے۔اس سے چار سال پہلے گذشتہ حکومت نے بھی سڑکوں پر حکومت مخالف مظاہروں کے خوف سے نہ صرف پیاز کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی بلکہ پیاز درآمد بھی کرنا شروع کر دی تھی۔مشہور برطانوی بینک ایچ ایس بی سی سے منسلک ماہر اقتصادیات پرنجل بھنڈاری کہتے ہیں کہ ’اگرچہ بھارت میں بظاہر عام انتخابات اور پیاز کی قیمتوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں دکھائی دیتا لیکن یہ بات سچ ہے کہ پیاز کی قیمتیں انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ شاید اس کا سب سے بڑا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا تھا جب سنہ1998 میں دلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کا ذمہ دار پیاز کی قیمتتوں میں اضافے کو ہی ٹھہرایاگیا تھا۔‘
پیاز حکومتیں گرا سکتا ہے، حیرت انگیز انکشاف
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں