منگل‬‮ ، 05 اگست‬‮ 2025 

 لاشیں بکھری پڑی تھیں

datetime 14  ‬‮نومبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مختلف مقامات پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں ہوٹل، فٹ بال سٹیڈیم، اور ایک کانسرٹ ہال کو نشانہ بنایا گیا۔ عینی شاہدین نے خبر رساں ادادروں کو آنھوں دیکھا حال بتایا کہ:
خون ہی خون
خبر رساں ادارے فراسن اِنفو کے مطابق بٹاکلان ہال سے زندہ باہر نکلنے والے ایک شخض نے بتایا کہ حملہ آوروں نے 60 کے قریب لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا انھوں نے لوگوں پر نیم خود کار بندوقوں سے فائرنگ کی۔ ’ہم وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب رہے ، وہاں ہر طرف خون ہی خون تھا۔‘
خوف کے عالم میںتھے
بین گرانٹ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بار میں تھے جب فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے چھ سے سات لاشیں زمین پر پڑی دیکھیں۔ ان کے بقول گولیاں ایک گاڑی سے چلائی گئیں۔بار میں حملے کے بعد زندہ بچ جانے والے اندر ہی محصور ہو گئے تھے’وہاں بہت سے لوگ مر چکے تھے۔خوف کے عالم میںتھے سچ کہوں تو یہ بہت دہشت ناک تھا۔ میں بار کے آخری حصے میں تھا۔ میں کچھ دیکھ نہیں پایا۔‘’میں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنی۔ لوگ زمین پر گر گئے۔ ہم نے خود کو بچانے کے لیے ایک میز اپنے اوپر کر لی۔‘’ہم بار میں ہی پھنس گئے کیونکہ ہمارے سامنے لاشیں پڑی تھیں۔‘
دو بڑے دھماکوں کی آوازیں
لیبریشن نامی اخبار نے ونسینٹ نامی ایک صحافی کے حوالے سے بتایا کہ وہ سٹیڈ ڈی فرانس میں تھے جہاں جرمنی اور فرانس کے درمیان فٹ بال میچ جاری تھا۔
سٹیڈیم کے باہر دھماکوں سے خوفزدہ ہو کر شائقین میدان میں اتر آئے’سب لوگ میدان میں چلے گئے۔ سب لوگ پریشان تھے کوئی نہیں جانتا تھا کہ باہر کیا ہوا ہے۔ میچ کے پہلے ہاف کے دوران باہر سے دو بڑے دھماکوں کی آواز آئی۔ ان کے بعد تیسرا قدرے ہلکا دھماکہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد میچ کے ہاف تک ایک ہیلی کاپٹر وہاں آ گیا۔‘’میچ ایسے جاری رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن ہم ٹوئٹر پر سب کچھ دیکھتے رہے خاص طور پر جب صدر اولاند کو وہاں سے نکالا گیا۔ ہم میں سے کسی نے بھی انھیں جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے میچ کا دوسرا ہاف نہیں دیکھا۔ وہاں اعلان کیا گیا کہ تماش بین جنوبی، شمالی اور مغربی راستوں سے باہر چلے جائیں۔ لیکن پانچ منٹ بعد ہی سب لوگ واپس آگئے۔‘
فرانس ون کی صحافی جولیئن پیریز جو بٹاکلان میں موجود تھیں نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا: ’متعدد مسلح افراد کانسرٹ میں داخل ہوئے۔ دو سے تین مردوں نے نقاب نہیں پہنے تھے ان کے ہاتھ میں شاید کلاشنکوف تھی، انھوں نے لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔‘’یہ فائرنگ دس سے 15 منٹ تک جاری رہی۔ یہ سب انتہائی پرتشدد تھا اور وہاں افرا تفری پھیل گئی۔ حملہ آوروں نے کم سے کم تین مرتبہ اپنی بندوقوں میں گولیاں بھریں۔ حملہ آور بہت کم عمر تھے۔‘
آتش بازی کی آواز
کارڈف سے تعلق رکھنے والے جاناتھن ہِل جو پیرس میں کام کرتے ہیں انھوں نہ بتایاکہ ایک شخص لوگوں کو بٹاکلان ہال کی جانب بھیج رہا ہے۔’میں بٹاکلان سے 70 گز کے فاصلے پر اے ٹی ایم سے کیش نکال رہا تھا۔ پیسے نکالتے ہوئے میں نے تین گولیوں کی آواز سنی۔ پہلے تو مجھے لگا یہ فائرنگ نہیں شاید کہیں آتش بازی ہوئی۔‘’چند لمحوں بعد میں نے ایک ساڑھے چھ فٹ کے بھاری بھرکم آدمی کو دیکھا جو شکل سے کوہ قافی لگ رہا تھا وہ سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا چلا آرہا تھا۔ وہ لوگوں سے ’ایلز ایلز ‘ کہہ رہا تھا۔ وہ لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ کیفیز سے نکل کر اندر جائیں۔ اسی اثنا میں گولی چلی اور بٹاکلان کے باہر کوئی شخص زمین پر گر گیا۔‘
کمبوڈین ریسٹورنٹ پر حملہ
پیرر مونٹفورٹ حملے کا نشانہ بننے والے ایک دوسرے ریسٹوران کے قریب ہی رہتے ہیں۔ انھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے 30 سیکنڈ تک مسلسل فائرنگ کی آواز سنی۔ ہم نے سوچا آتش بازی ہو رہی ہے۔‘ریسٹوران میں موجود ایک دوسرے عینی شاہد نے بتایا سب لوگ فرش پر گر گئے۔ ایک آدمی کے ہاتھوں میں ایک نوجوان لڑکی تھی جو مردہ لگ رہی تھی۔‘
جنگ ہو رہی ہے

ایک عینی شاہد جس کا سامنا ایک حملہ آور سے ہوا تاہم وہ فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ ’کانسرٹ میں اونچی آواز میں موسیقی چل رہی تھی۔ میں نے گولیوں کی آواز سنی۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو دروازے میں کسی کا سایہ دکھائی دیا۔ اس نے میری طرف فائرنگ کر دی۔‘ ’لوگوں نے خود کو زمین پر گرانا شروع کر دیا۔ مجھے لگا میرے سامنے موجود لڑکا مر چکا تھا۔‘’میں بھاگا اور رکاوٹوں کو پھلانگتا ہوا سٹیج کے قریب لوگوں کی پہلی قطار میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد میں کمرے کے مخالف سمت میں موجود ہنگامی اخراج کے راستے سے باہر آ گیا۔‘’ہم پہلی منزل پر ایک کیفے میں چھپ گئے۔ جب ہم نے لوگوں کو بتایا کہ وہاں کیا ہوا ہے تو لوگوں نے فوراً یقین کر لیا۔ یہاں جنگ ہو رہی ہے ہم پر کچھ دیر پہلے گولیاں چلائی گئی ہیں۔‘’ہمیں صرف سائرن کی آواز آ رہی ہے ہم یہاں سے نکالے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



مورج میں چھ دن


ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…

کاش کوئی بتا دے

مارس چاکلیٹ بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی…

کان پکڑ لیں

ڈاکٹر عبدالقدیر سے میری آخری ملاقات فلائیٹ میں…

ساڑھے چار سیکنڈ

نیاز احمد کی عمر صرف 36 برس تھی‘ اردو کے استاد…