آپ علامہ اقبال کی حیات کا ایک دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجئے۔ لارڈ والنگٹن متحدہ ہندوستان کا سترواں وائسرائے تھا‘ اس کے دور میں لندن میں دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس ہوئی تھی‘ تیسری کانفرنس میں علامہ اقبال بھی شریک ہوئے تھے‘ اس کانفرنس میں لارڈ والنگٹن کی علامہ صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی ‘ وائسرائے علامہ صاحب کی شخصیت سے بے انتہا متاثر ہوا‘ ہندوستان پہنچ کر اس نے علامہ صاحب کو جنوبی افریقہ میں سفارت کی پیش کش کر دی‘ یہ اس دور کا بہت بڑا عہدہ تھا‘ علامہ صاحب نے پیش کش سن کر پوچھا ”اس عہدے کی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز کیا ہیں“ علامہ صاحب کو بتایا گیا ”کچھ نہیں‘ بس آپ اپنی اہلیہ کو سرکاری تقریبات میں لے کر جائیں گے“ علامہ صاحب نے وائسرائے لارڈ والنگٹن کو پیغام بھجوایا ”ہز ایکسی لینسی بے شک میں ایک گناہ گار مسلمان ہوں‘ مجھ سے شریعت کی پابندی میں کوتاہی ہو جاتی ہے لیکن میں اس کے باوجود صرف معمولی سے سرکاری عہدے کیلئے یہ ذلت برداشت نہیں کر سکتا‘میں سفارت کیلئے شریعت کا حکم نہیں توڑ سکتا“۔
یہ ہمارے علامہ اقبال صاحب تھے‘ وہ علامہ اقبال جنہوں نے پاکستان کا تصور دیالیکن آپ علامہ صاحب کی قوم کا کمال دیکھئے‘قوم نے پاکستان میں ان کی کسی سوچ‘ کسی فکر‘ کسی خیال‘ کسی فلسفے اور کسی احساس کا کوئی رنگ نہیں رہنے دیا‘ خودی اور خودداری علامہ صاحب کا فلسفہ تھا لیکن آج آپ کو اس ملک میںکسی جگہ خودداری نظرآئے گی اور نہ ہی خودی۔ علامہ صاحب کی سوچ یقین محکم‘ عمل پیہم اورمحبت فاتح عالم تھی لیکن آج آپ کو اس قوم میں محبت ملے گی ‘ عمل ملے گا اور نہ ہی یقین ملے گا‘ علامہ اقبال ہمیں ایسی قوم بنانا چاہتے تھے جو شاہین کی طرح پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرے لیکن ہم اقبال کے شاہین کوبٹیر بنا کر کھا گئے اور پیچھے جنگل رہ گیا اور چھوٹے چھوٹے جانور بچ گئے‘ اقبال مرد کوہستانی اور بندہ صحرائی سے فطرت کی نگہبانی کا کام لینا چاہتے تھے لیکن ہم نے مرد کوہستانی پر فوج چڑھا دی اور بندہ صحرائی کو روٹی روٹی کا محتاج بنا دیا‘ علامہ اقبال ہماری خودی کو اتنا بلند دیکھنا چاہتے تھے کہ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے لیکن ہم نے اس خودی کا کشکول بنا کر اسے آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک اور امریکاکے دروازے پر رکھ دیا‘ اقبال نیل کے ساحلوں سے لے کر کاشغر کی خاک تک سب مسلمانوں کو ایک قوم سمجھتے تھے لیکن ہم نے اس ایک قوم کو ” سب سے پہلے پاکستان “بنا دیا‘ اقبال ملت اسلامیہ کو ایک ایسا جسم بنانا چاہتے تھے جس میں کابل میں کاٹنا چبھے توایران کے منہ سے چیخ نکل آئے لیکن ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کابل میں کانٹا چبھونا شروع کر دیا اورایران‘ یمن اور شام کو اپنادشمن بنا لیا اور اقبال خودی کو بچا کر غریبی میں نام پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے خودی کو بیچ بیچ کر سرے محل بھی بنائے‘ دوبئی میں ہوٹل بھی کھڑے کئے اور لندن میں آف شور کمپنیاں بھی بنائیں‘علامہ صاحب کی قوم بہت ظالم ہے‘ اس قوم نے اقبال کے زمان و مکان کو روز و شب میںالجھاکر مار دیا‘ اس نے اس معجزہ فن کو اوباماکی گلیوں میں رول دیا جس سے خونِ جگر کی نمود ہونا تھی‘ قوم نے اس ذوق یقین کو خیرات بنا دیا جس نے اس کی غلامی کی زنجیریں کاٹنا تھیں‘ قوم نے اس فاتح عالم محبت‘اس عمل پیہم اور اس یقین محکم کو اوبامہ کے حوالے کر دیا جس نے جہاد زندگانی میں اس کی شمشیر بننا تھا ‘ قوم نے قوم رسول ہاشمی کی اس خاص ترکیب کو کبھی ”فرینڈز آف پاکستان“ کے قدموں میں رکھ دیا اور کبھی اس کے یورو بانڈ بنا کر دنیا کی مارکیٹ میں بیچ دیا جس نے اس قوم کو اقوام مغرب کے قیاس سے باہر نکالنا تھا اور قوم نے خوشہ گندم کے ساتھ ساتھ اس دہقان کو بھی جلا کر راکھ کر دیا جس سے اس ملک کے عوام کو روزی ملنا تھی۔ علامہ اقبال بیرونی دنیا اور بیرونی حالات سے مقابلے کیلئے اندرونی مضبوطی یعنی انٹرنل سٹرنتھ کو ضروری سمجھتے تھے۔ آپ کا کہنا تھا ”انسان اگر اندر سے مضبوط ہو تو اسے باہر کی کسی طاقت سے کوئی خطرہ نہیں ہوتالیکن ان کے 138 ویں یوم ولادت پر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا‘ ہم اندر سے سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور ہو چکے ہیں‘ آج ہماری حالت یہ ہے‘ عالمی میڈیا دعویٰ کرتا ہے” پاکستان کے جوہری اثاثے محفوظ نہیں ہیں‘یہ اپنے بم کی حفاظت نہیں کر سکتے“۔ آپ المیہ ملاحظہ کیجئے‘ وہ قوم جسے علامہ اقبال ہر لحاظ سے شاہین دیکھنا چاہتے تھے‘ وہ اتنی کمزور ثابت ہو رہی ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کی حفاظت کےلئے دنیا سے مذاکرات پر مجبور ہے‘ کیاعلامہ اقبال کی قوم سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی لحاظ سے اتنی کمزور ہو چکی ہے؟ اگر ہاں تو پھر ہم آج کے پاکستان کو علامہ اقبال کا پاکستان کیسے کہہ سکتے ہیں؟علامہ اقبال کی سوچ‘ ان کی فکراور ان کے عظیم تصور کور خصت ہوئے دہائیاں گزر چکی ہیں‘ بس ان کی ایک نشانی‘ ایک یاد باقی تھی‘9نومبر کی چھٹی‘ قوم کو 9نومبر کو یاد آ جاتا تھا‘ ہمارا کوئی مصور بھی تھا‘ ہمارا کوئی علامہ اقبال بھی تھا اور ہمارا کوئی شاعر مشرق بھی تھا لیکن حکومت نے اس سال 9 نومبر کی چھٹی ختم کر کے یہ آخری یاد‘ یہ آخری نشانی بھی مٹا دی اور یوں اقبال کے فلسفے کے ساتھ ساتھ ان کی یاد بھی بحرظلمات کی سیاہ لہروں میں گم ہو گئی‘ اقبال ہمیشہ ہمیشہ کےلئے پاکستان سے رخصت ہو گیا۔
میں سرکاری چھٹیوں کے خلاف ہوں‘ میں سمجھتا ہوں ہم جیسی پسماندہ قومیں سرکاری چھٹیاں افورڈ ہی نہیں کر سکتیں‘ ہمارے جیسی قومیںجب تک اپنی راتیں چھوٹی اور دن لمبے نہیں کرتیں‘ یہ جب تک بلامعاوضہ ”اوورٹائم“ کو اپنا شعار نہیں بناتیں‘یہ اس وقت تک غربت‘ بیماری اور زوال سے باہر نہیں آ سکتیں‘ ہم دنیا میں سب سے زیادہ چھٹیاں کرنے والے لوگ ہیں‘ ہم 365 دنوں میں 165 دن چھٹی پر ہوتے ہیں‘ باقی 200 دن بچتے ہیں‘ ان دو سو دنوں میں بھی کبھی خود بیمار ہو جاتے ہیں اور کبھی ہماری اہلیہ‘ بچہ یا والدین علیل ہو جاتے ہیں‘ کبھی ہماری پھوپھی‘ ہماری خالہ‘ ہماری بہن یا ہماری سالی کی شادی ہوتی ہے اور کبھی ہم اپنے کسی بھائی‘ بہنوئی یا بھانجے بھتیجے کے چکر میں پھنس جاتے ہیں اور کبھی ہم کسی نہ کسی ایکسیڈنٹ کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہم چھٹی مار قوم ہیں‘ جمعہ کو ہم جمعہ کی وجہ سے کام نہیں کرتے‘ ظہر کے وقت ہم نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن ہم نماز کے ”احترام“ میں کام نہیں کریں گے‘ رمضان کا پورا مہینہ ہمیں صبح دس بجے روزہ لگ جاتا ہے‘ گرمیوں میں ہم گرمی کی وجہ سے کام نہیں کرتے‘ سردیوں میں ہماری صلاحیتیں جم جاتی ہیں‘ خزاں میں ہمارا موڈ آف رہتا ہے اور بہار میں ہمیں ”پولن انرجی“ ہو جاتی ہے‘ عید سے پندرہ دن پہلے ہم عید کی تیاری شروع کر دیتے ہیں اور عید سے پندرہ دن بعد تک ہم عید کی تھکاوٹ اتارتے رہتے ہیں‘آپ کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں‘ اگر آپ کا کام کسی نہ کسی سرکاری ملازم کی چھٹی کی وجہ سے نہ رکے تو آپ میرا نام بدل دیجئے گا‘ اس چھٹی مار قوم کو مشاہیر کے نام پر مزید چھٹیاں دینا واقعی ظلم ہے‘ قوم کو اقبال اور قائداعظم کے نام پر چھٹی نہیں کرنی چاہیے‘ کام کرنا چاہیے‘ یہ بات یہاں تک درست ہے لیکن کام کے نام پر علامہ اقبال اور قائداعظم کی یاد‘ ان کی آخری نشانی مٹا دینا ظلم عظیم ہے‘ اگر قوم 9 نومبر اور 25 دسمبر کو مریخ کو ہاتھ لگانے کا کوئی فارمولہ ایجاد کر لے تو آپ بے شک یہ چھٹیاں ختم کر دیں لیکن اگر قوم 9 نومبر کو دفتر جا کر بھی وہیں کی وہیں رہے گی تو پھر آپ یہ یاد‘ یہ نشانی باقی رہنے دیں‘ کم از کم قوم کو اس دن چند لمحوں کےلئے ہی سہی قائد اور علامہ یاد تو آئیں گے‘ یہ کم از کم تین سیکنڈ کےلئے شرمندہ تو ہو جائے گی۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اگر واقعی سنجیدہ ہیں تو یہ 9 نومبر اور 25 دسمبر کا زیادہ بہتر استعمال بھی نکال سکتے ہیں‘حکومت 9 نومبر اور 25 دسمبر کی چھٹیاں ختم کر دے لیکن اس دن ملک کے تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں قائداعظم اور علامہ اقبال کی یاد میں تقریبات ہونی چاہئیں‘ ملک کے ہر ادارے میں اس دن قائداور علامہ کی سالگرہ کا کیک کاٹا جائے‘ ان کی حیات کے اہم واقعات دہرائے جائیں اور یہ اعلان کیا جائے ہم آج کے دن اس وقت تک گھر نہیں جائیں گے جب تک ہم آج کا کام ختم نہ کرلیں اور اس دن واقعی تمام ملازمین اپنا کام ختم کر کے گھروں کو لوٹیں‘ مجھے یقین ہے علامہ اور قائد دونوں کی روحوں کو سکون آ جائے گا‘ دونوں فخر سے اپنی قوم کو دیکھیں گے‘ وزیراعظم صاحب کو صرف چھٹی ختم کرنے کی بجائے اس دن کامفید استعمال ڈھونڈنا چاہیے‘ ایک ایسا مفید استعمال جو قلب کو بھی گرما دے‘ روح کو بھی تڑپا دے‘ دل مسلم کو زندہ تمنا بھی دے دے اور جو پاکستان کو اقبال کا پاکستان بھی بنا دے‘ صرف چھٹی ختم کرنے سے کام نہیں چلے گا‘ اس دن کا مفید استعمال بھی ایجاد ہونا چاہیے۔
بس ایک یاد باقی تھی
12
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں