کراچی (نیوزڈیسک) امریکی اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت بن سکتا ہے ، نریندر مودی نے سیکورٹی معاملات پر اسلام آباد کے ساتھ کچھ نہیں کیا،دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کی ذمہ داری مودی پر آتی ہے۔پاکستان اپنے بجٹ کا 25؍ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ پاک فوج کےچیف آف اسٹاف اس ماہ واشنگٹن کا دورہ کرنے والے ہیں ،جن کا کہنا ہے کہ بھارت کے روایتی ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان کو ابھی بھی زیادہ ایٹمی ہتھیاروں کی ضرورت ہے تاہم بھارت بھی کئی دہائیوں سے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کررہا ہے ،روزنامہ جنگ کے صحافی رفیق مانگٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھی مغرب کی طرف سے ایسا ہی طرز عمل چاہتا ہے جس طرح اس نے بھارت کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ امریکی اخبار’’ نیویارک ٹائمز ‘‘ا پنے اداریے میں لکھتا ہے کہ پاکستان رواں دہائی میں امریکا اورروس کے بعد 120وارہیڈز کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت بن سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان دیگر جوہری طاقتوں چین، فرانس اور برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔ پاکستان جوہری ہتھیاروں میں سب سے زیادہ تیزی سےاضافہ کررہا ہے اور چھوٹے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کو تیار کرکے پاکستان ایسے دور میں داخل ہوچکا ہے جہاں وہ آسانی سے بھارت کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس کے پاس طویل رینج کے میزائل کی صلاحیت بھی ہےجو اس سے زیادہ فاصلے تک مار کرسکتے ہیں۔ اوباما نتظامیہ جوہری مسئلے کے کسی ممکنہ معاہدے پر پہنچنا چاہتی جو سب کو قابل قبول ہو۔ مغرب کیلئے پاکستان کی طرف سے تحمل اور جوہری ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے بین الاقوامی قوانین کی تعمیل ہے، پاکستان کے لئے جوہری طاقتوں کے محور میں اس کی قبولیت اور ٹیکنالوجی تک رسائی دینا مطلب ہے۔ اس وقت چین کے سوا پاکستان جوہری ممالک کیلئے قابل قبول نہیں، 1998ء میں بھارت کے جواب میں جوہری تجربات کے بعدعالمی برادری کی طرف سے پاکستان پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان نے سب کچھ اپنے بل بوتے پر کیا۔ بھارت بھی کئی دہائیوں سے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے، 2008میں امریکا نے بھارت کے ساتھ جوہری تعاون معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت نئی دہلی کو امریکی ایٹمی توانائی کی ٹیکنالوجی کو خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔امریکی حکام کہتے ہیں کہ بھارت کی طرح کے معاہدے کی پیش کش پاکستان کو نہیں کی جارہی ،ایسے معاہدے کی کانگریس میں بھی سخت مخالفت ہوگی۔48ملکوں کے نیوکلیئر اسپلائر گروپ میں پاکستان کی رکنیت کے لئے امریکی حمایت کا جواز پیش کرنے کےلئے بات چیت کی ضرورت ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ پہلے قدم کے طور پر پاکستان ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے پیچھے نہ بھاگےاور طویل رینج کے میزائل کو بنانا بھی روک دے۔ جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر پابندی عائد کرنے کے معاہدے پر بھی پاکستان کو دستخط کرنے چاہئے۔بھارت سے مقابلہ بھی جوہری ہتھیاروں میں اضافے کی وجہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شدت اختیار کر رہی ہے جس کےلئے بین الاقوامی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ پریشان کن سچائیاں ہیں کہ پاکستان میں کافی عسکریت پسند گروپ ہیں جنہیں بھارت سے خبط رکھنے والے کچھ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے جوخصوصاً جنوبی ایشیا او رپوری دنیا کو درپیش خطرات میں اضافہ کر دیتی ہے۔بین الاقوامی ترجیح پاکستان کو آمادہ کرنے میں ہونی چاہیے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر قابو رکھے۔بڑی عالمی طاقتوں نے ایران کے جوہری عزائم کو روکنے کے معاہدے پر مذاکرات میں دو سال لگا دیے جس کے پاس ایک بھی جوہری ہتھیار نہیں۔اوباما انتظامیہ نے اس پیچیدہ مسئلے کے فوری حل پر غور شروع کر دیا،تاہم کامیابی کے آثار کم ہیں۔امریکی صدر اوباما اور پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان 22 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں اجلاس بغیرنتیجہ کے دکھائی دیتا ہے۔ کشمیر اور دہشت گردی پر پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی کشیدگی میںجوہری مسئلے کے حل کوششیں جاری رہنی چاہیے۔