کوالالمپور۔۔۔۔بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ انڈونیشیا سے سنگاپور جاتے ہوئے بحیرہ جاوا میں گر کر تباہ ہونے والے ایئر ایشیا کے مسافر بردار طیارے کے پاس حادثے والے دن پرواز کا لائسنس ہی نہیں تھا۔??و زیڈ8501 نامی اس ایئربس اے 320 طیارے کو صرف ہفتے کے دیگر چار دنوں میں اس ہوائی راستے پر پرواز کرنے کی اجازت تھی۔انڈونیشیا کی وزارتِ ٹرانسپورٹ نے اب سورابا?ا سے سنگاپور جانے والی ایئر ایشیا کی تمام پروازیں معطل کر دی ہیں۔اتوار کو حادثے کا شکار ہونے والے طیارے پر 162 افراد سوار تھے جن میں سے بیشتر کی لاشیں تاحال سمندر میں ہی موجود ہیں۔حادثے کے پانچویں دن جمعے کو سمندر سے مزید لاشیں نکالی گئی ہیں جن کے بعد انڈونیشیائی حکام کے مطابق اب تک ملنے والی لاشوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے۔حادثے کا شکار ہونے والے جہاز کے ملبے کی تلاش اب خاص آلات آنے کے بعد پانی کے اندر شروع کر دی گئی ہے۔بحیرہ جاوا سے ملنے والی لاشیں کو نزدیکی شہر تک لایا جا رہا ہے
فرانس کی حادثے کی تحقیقات کرنے والی ٹیم طیارے اور اس کا بلیک باکس ریکارڈر ڈھونڈنے کے لیے حساس آلات استعمال کر رہی ہے۔حادثے کے نزدیکی شہر پنگ کلاں بن شہر میں حکام کے مطابق جمعے کو مزید لاشیں برآمد کی گئیں۔ ابھی تک صرف چار افراد کی شناخت ہو سکی ہے۔ایک خاتون کو حیاتی لطفیہ حامد کے نام سے شناخت کیا گیا ہے جن کی نمازِ جنازہ جمعرات کو سورابایا میں ادا کی گئی۔خیال کیا جا رہا ہے کہ جہاز بحیرہ جاوا کے اتھلے پانیوں میں ہے۔ جہاز کے ملبے کے کئی حصے مل گئے ہیں، جن میں پروں کے حصے بھی شامل ہیں۔لیکن پانچ دنوں پر محیط تلاش کی بڑی کارروائی کے باوجود ابھی تک جہاز کا فیوزیلاڑ (جہاز کا مرکزی حصہ جہاں مسافر بیٹھتے ہیں) نہیں ڈھونڈا جا سکا۔ حکام کا اندازہ ہے کہ اکثر مسافروں کی لاشیں اس کے اندر ہوں گی۔جہاز کی تلاشی کی کارروائی میں متعدد ملکوں کے ہوائی اور بحری جہاز حصہ لے رہے ہیں۔حادثے کے مجوزہ مقام سے قریب ترین شہر پنگ کلان بن میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار روپرٹ ونگ فیلڈ ہیز کہتے ہیں کہ تلاشی کی ٹیمیں اب اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ ان کا کام ابتدائی اندازوں کی نسبت کہیں زیادہ مشکل ہو گا۔انھوں نے کہا کہ خراب موسم اور متلاطم سمندر کی وجہ سے جہاز کو آنکھوں سے ڈھونڈ نکالنا دشوار ہو گیا ہے، اور اب ٹیمیں سونار اور حساس آلات استعمال کر کے سمندر کی تہہ کا جائزہ لے رہی ہیں۔جہاز کے فیوزیلاڑ اور فلائٹ ریکارڈر کی تلاش سے اس معمے کے حل میں مدد ملے گی کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ جہاز اس طرح اچانک سمندر میں جا گرا۔انڈونیشیا کے تلاش اور بچاؤ کے محکمے کے سربراہ بمبانگ سوئلیستیو نے جمعے کو بتایا کہ ملبہ اور لاشیں بحیرہجاوا میں پانچ کلومیٹر کے علاقے میں پھیلی ہوئی ہیں۔انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’غوطہ خور بحری جہاز ’باندا آچے‘ پر جہاز کو ڈھونڈنے کے لیے تیار ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آج اہم نتائج حاصل ہوں گے۔‘جہاز پر 137 بالغ مسافر، 17 بچے اور ایک شیرخوار بچے کے علاوہ دو پائلٹ اور عملے کے پانچ ارکان سوار تھے۔ ان کی اکثریت کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔جہاز کے عملے کی رکن حیاتی لطفیہ کی نمازِ جنازہ جمعرات کو سورابایا میں ادا کی گئی
ادھر بعض تفتیش کاروں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر جب پائلٹ نے طوفان سے بچنے کے لیے تیزی سے بلندی پر جانے کی کوشش کی تو جہاز کا انجن بند ہو گیا اور وہ گرنا شروع ہو گیا۔روئٹرز نے حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ جہاز 32 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور اس نے خراب موسم سے بچنے کے لیے 38 ہزار فٹ کی بلندی پر جانے کی اجازت مانگی تھی۔ایئر کنٹرول نے پائلٹ کو 34 ہزار فٹ تک جانے کی اجازت دی مگر پھر جہاز سے رابطہ منقطع ہو گیا۔روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جہاز نے ’ناقابلِ یقین‘ تیزی سے اوپر چڑھنے کی کوشش کی، جو ایئربس A320 طیارے کی استعداد سے باہر تھا۔
اس سے قبل ایئر ایشیا کا سیفٹی ریکارڈ بہت عمدہ تھا اور اب تک اس کے جہازوں کو کوئی مہلک حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔
ایئر ایشیا کے تباہ ہونے والے طیارے کے بارے میں نیا حیرت انگیز انکشاف ، کلک کر کے پڑھیں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں