عالمی ادرہ صحت کے مطابق تپِ دق یا عام فہم میں ٹی بی کہلانے والی بیماری اب ایڈز کی طرح ہی مہلک ترین بیماری بن گئی ہے۔دونوں بیماریوں سے سنہ 2014 میں گیارہ اور بارہ لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔عالمی ادرہ صحت یعنی ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ایک قابلِ علاج بیماری ہوتے ہوئے بھی تپِ دق کے اعداد و شمار ناقابلِ قبول ہیں۔
میڈیسن سینس فرنٹیئرز کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار انتہائی مایوس کن ہے اور ٹی بی کے خلاف بچاو¿ میں ناکامی کی تنبیہہ ہیں۔عالمی ادراہصحت کی ٹی بی سی متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق تپِ دق سے لڑنے کے لیے بڑے بڑے اقدامات کیے گئے جن کی وجہ سے سنہ 1990 کے بعد سے شرح اموات نصف ہوئی ہے۔ اور اس بیماری میں مبتلا ہونے کا تناسب بھی سنہ 2000 سے ایک اعشاریہ پانچ فیصد کم ہوا ہے۔ایڈز سے بچاو¿ کی ادویات کے باعث اس بیماری میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ڈبلیو ایچ او میں تپِ دق سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریو نے بی بی سی نیوز کو بتایا ’دنیا بھر میں تپِ دق اور ایڈز سے متاثر ہو کر مرنے والے افراد کی تعداد تقریباً برابر ہے۔‘ تپِ دق بھی اب ایڈز کی سطح کی بیماری بن گئی ہے۔‘عالمی ادارہ صحت ٹی بی اور ایڈز کو ایک ہی سطح کی دو بڑی قاتل بیماریاں قرار دے رہا ہے ٹی بی سے نئے متاثر ہونے والے مریضوں کا تعلق چین، بھارت، انڈونیشیا، نائیجریا اور پاکستان سے ہے۔
ایڈز سے ہلاکتوں کی تعداد سنہ 2000 کے بعد سے کم ہویی ہے اور سالانہ اس سے بارہ لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔جبکہ سنہ 2014 میں تپِ دق کے باعث جان گنوانے والے افراد کی تعداد پندرہ لاکھ ہے۔ لیکن ان میں سے چار لاکھ کو سرکاری طور پر ایڈز کے مریضوں میں شامل کیا گیا چونکہ وہ ایچ آئی وی پازیٹیو بھی تھے۔عالمی ادارو صحت ٹی بی اور ایڈز کو دو بڑی قاتل بیماریاں قرار دے رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹر جنل مارگریٹ چین کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 کے بعد سے بہت فرق پڑا ہے تاہم اگر دنیا اس وبا کو ختم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے خدمات اور تحقیق کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔
عالمی ادارہ صحت اگلے سال تپِ دق کے خاتمے کے لیے اپنے لائحہ عمل تیار کرے گی جس کے مطابق سنہ 2030 تک اس بیماری سے ہونے والے اموات کو 90 فیصد تک کم کیا جائے گا۔
ٹی بی کی بیماری اب ایڈز کی طرح مہلک
30
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں