ماسکو (نیوزڈیسک)شام میں پچھلے چند ہفتوں سے روسی فوج کی جاری فوجی کاررائی کے دوران بہ ظاہر یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ روسی فوج کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف دولت اسلامی داعش ہے مگر حال ہی میں سامنے آنے والی ایک تجزیاتی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ روسی فوج کے حملوں کا اصل ہدف اعتدال پسند شامی اپوزیشن کی نمائندہ فوج ہے۔ روسی فوج نے شام میں کیے 80 فی صد حملوں میں “داعش” کے بجائے دوسرے گروپوں کو نشانہ بنایا ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی نے روسی وزارت دفاع کے عہدیداروں، مبصرین اور آزاد ذرائع سے حاصل ہونے والی رپورٹس کی روشنی میں بتایا ہے کہ روسی فوج نے ان اپوزیشن جنگجوﺅں کے ٹھکانوں پر بمباری میں زیادہ توجہ مرکوز ہے جنہیںامریکا کی جانب سے اسلحہ اور تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر النصرہ فرنٹ جیسے گروپوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ داعش کو نشانہ بنانے کے دعوے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتے۔انٹریٹ پر دستیاب روسی محکمہ دفاع کے شام میں حملوں سے متعلق آرکائیو اوربیانات سے مترشح ہوتا ہے کہ شام میں تین ہفتے قبل شروع کی جانے والی کارروائی میں اب تک 64 مقامات پر بمباری کی جاتی رہی ہے۔ ان میں سے صرف 15 ایسے اہداف ہیں جہاں “داعش” کے ٹھکانوے بتائے جاتے ہیں۔ دیگر تمام وہ اہداف ہیں جہاں النصرہ فرنٹ یا امریکا کے تربیت یافتہ اعتدال پسند گروپ سرگرم ہیں۔