پیر‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

datetime 25  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ان کی جان بچ گئی‘ انٹرنل انکوائری میں یہ معاملہ مشکوک نکلا گو جنرل فیض حمید نے اسے غیر نصابی سرگرمیوں کا نتیجہ قرار دیا تھا لیکن یہ معاملہ مشکوک تھا‘ میری 2022ء کے آخر میں جب جنرل باجوہ صاحب سے ملاقاتیں ہوئیں تو میں نے دیگر سوالوں کے ساتھ ساتھ ان سے ابصار عالم‘ اسد طور اور حامد میر سے متعلق بھی پوچھا‘ طلعت حسین کو نومبر 2018ء میں جیونیوز سے فارغ کر دیا گیا تھا اور یہ حکم اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے دیا تھا اور انہوں نے جیو کی انتظامیہ سے کہا تھا آپ طلعت حسین کو بتائیں ان کا پروگرام میں بند کرا رہا ہوں‘ میں نے 2022ء میں جنرل باجوہ سے اس کے متعلق بھی پوچھا تھا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے جنرل باجوہ کا جواب تھا ہمارے لوگوں کا خیال تھا طلعت حسین باز نہیں آ رہا‘ یہ جب ایک ہی موقف بار بار دہرائیں گے تو اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ تو نکلے گا‘ آپ لوگ سکرین پر بیٹھ کر کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم اس کا جواب نہیں دے سکتے‘ ہم زیادہ سے زیادہ درخواست کر سکتے ہیں‘ سمجھا سکتے ہیں‘ طلعت حسین کو بھی سمجھایا جاتا رہا لیکن یہ نہیں سمجھے‘ جنرل باجوہ نے یہ بھی بتایا طلعت حسین میرے ایک کزن کے ساتھ میرے پاس آئے تھے‘

میں نے کزن کی سفارش پر ایک بار ان کی نوکری بچا لی لیکن یہ اس کے باوجود باز نہیں آئے اور ون سائیڈڈ پروپیگنڈا کرتے رہے اور پھر اس کا نتیجہ نکلا‘ جنرل باجوہ کا کہنا تھا لیکن اس میں زیادہ قصور ہمارا نہیں تھا‘ جیو کی انتظامیہ بھی ان کے رویے سے تنگ تھی‘ یہ بھی بہانہ تلاش کر رہی تھی‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نہ کہتا تو بھی طلعت حسین نے فارغ ہونا ہی تھا‘ میں نے پوچھا تھا اس کے ذمہ دار آپ ہیں‘ جنرل عاصم باجوہ یا پھر جنرل فیض حمید؟ جنرل باجوہ کا جواب تھا عمران خان‘ یہ ان سے خوش نہیں تھے‘ یہ بار بار جنرل فیض حمید کو کہتے تھے اور ہم لوگ زیادہ دیر وزیراعظم کو انکار نہیں کر سکتے‘ جنرل باجوہ نے بتایا تھا عمران خان میر شکیل الرحمن کے سخت خلاف تھے‘ انہوں نے غالباً 2005ء کے زلزلے کے دوران عمران خان کے ساتھ مل کر کوئی پراجیکٹ کیا تھا‘ ان کے دل میں اس وقت سے میر شکیل الرحمن کے خلاف گانٹھ لگ گئی چناں چہ وزیراعظم بنتے ہی انہوں نے انہیں گرفتار کرا دیا‘ میں نے وزیراعظم کو تین بار سمجھایا میر صاحب بیمار ہیں اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو آپ کی جان نہیں چھوٹے گی لیکن ان کا کہنا تھا میری بلا سے بے شک ہو جائے‘ میں میر صاحب کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر وزیراعظم ان کے سخت خلاف تھے تاہم میں نے انہیں جیل سے ہسپتال شفٹ کرا دیا جہاں ان کے پاس دو کمرے تھے اور یہ وہاں فیملی‘ دوستوں اور اپنے سٹاف سے ملاقاتیں کر سکتے تھے‘ وزیراعظم میری اس حرکت سے مجھ سے سخت ناراض تھے لیکن میں نے جنرل فیض کو کہہ دیا تھا خبردار اگر میر شکیل الرحمن کو ہسپتال سے جیل شفٹ کیا‘ عمران خان ہر دوسرے دن جنرل فیض کو کہتے تھے آپ لوگ جب مجرموں کو سرکاری خرچ پر ہسپتالوں کے وی آئی پی روم میں رکھیں گے تو پھر انصاف کیسے قائم ہو گا لیکن وہ خاموش رہ کر اپنی جان چھڑا لیتے تھے۔

جنرل باجوہ نے 2022ء میں تسلیم کیاتھا اور ابصار عالم کے معاملے میں جنرل فیض حمید نے ہم سے غلط بیانی کی تھی لیکن یہ اس نوعیت کا آخری واقعہ تھا اس کے بعد کسی صحافی پر حملہ نہیں ہوا‘ میں نے انہیں اسد طور اور حامد میر کا حوالہ دیا‘ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان کا جواب تھا میں اسد طور کو بالکل نہیں جانتا تھا‘ میں نے اس کا نام ہی اس واقعے کے بعد سنا تھا‘ اس کے ساتھ جو بھی ہوا اور جس نے بھی کیا غلط تھا لیکن اس پر ابصار عالم کی طرح حملہ نہیں ہوا تھا‘ حامد میر نے اس کے بعد جنرل فیض حمید سے متعلق غلط بیانی کی تھی‘ جنرل فیض حمید کو کراچی آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کے لوگوں سے گولی لگی تھی لیکن حامد میر نے اسے اس کی بیگم کے کھاتے میں ڈال دیا‘ یہ سراسر غلط تھا لیکن اس غلط بیانی کے باوجود حامد میر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی‘ میں نے سختی سے منع کیا ہوا تھا حامد میر سمیت کسی صحافی کے ساتھ مس ہینڈلنگ نہیں ہو گی‘ یہ فیصلہ فیض حمید کے لیے برداشت کرنا مشکل تھا۔
جنرل فیض حمید نے بشریٰ بی بی اور عمران خان کے گرد بڑی کڑی فیلڈنگ لگا رکھی تھی‘ یہ ڈی جی آئی ایس آئی کی پوزیشن نہیں چھوڑنا چاہتے تھے‘ نومبر 2021ء میں جب ان کی مدت کے خاتمے کا وقت آیا تو عمران خان نے انکار کر دیا‘آرمی چیف نے وزیراعظم کو بتایا فوج کی روایات کے مطابق یہ اگر ایک سال کمانڈ نہیں کرتے تو پھر یہ آرمی چیف نہیں بن سکیں گے‘ ان کا نام آرمی چیف کی ریکمنڈیشن لسٹ میں شامل نہیں ہو سکے گا‘

جنرل فیض اس صورت حال سے واقف تھے چناں چہ انہوں نے وزیراعظم کو بریف کر رکھا تھا آپ آرمی چیف کو حکم دیں یہ آئی ایس آئی کو کور ڈکلیئر کر دیں یا مجھے موجودہ پوزیشن میں کور کمانڈر کا اضافی چارج دے کر میری مدت پوری کر لیں اور اگر یہ آرمی ایکٹ کا حوالہ دیں تو آپ انہیں بتائیں ہم پارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ تبدیل کرا دیتے ہیں اور اگر یہ اس کے بعد یہ دلیل دیں یہ ممکن نہیں تو پھر آپ ان کی ایکسٹینشن کا حوالہ دے کر کہیں اگر پارلیمنٹ سے آرمی ایکٹ تبدیل کر کے آپ کی ایکسٹینشن ہو سکتی ہے تو پھر جنرل فیض کو دو عہدے کیوں نہیں دیے جا سکتے یا آئی ایس آئی کے ڈی جی کو کور کمانڈر کے برابر قرار کیوں نہیں دیا جا سکتا‘ بہرحال وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان مکالمہ ہوا اور جنرل باجوہ نے جنرل فیض حمید کی توقع کے عین مطابق دلائل دیے اور وزیراعظم نے جنرل فیض کے رٹائے ہوئے جواب دیے اور یوں یہ ملاقات تلخ کلامی پر ختم ہوئی‘ یہ معاملہ آگے چل کر اتنا گھمبیر ہو گیا کہ جنرل باجوہ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو فون کر کے مطلع کر دیا میں کل سے دفتر نہیں جا رہا‘ آپ نئے آرمی چیف کا بندوبست کر لیں یوں کہانی میں نیا ٹویسٹ آ گیا اور یہ ٹویسٹ فیض حمید کے پلان میں شامل نہیں تھا اگر جنرل باجوہ نومبر 2021ء میں ریٹائرمنٹ لے لیتے تو پھر جنرل فیض حمید آرمی چیف نہیں بن سکتے تھے‘ ان کا خواب صرف اس شکل میں پورا ہو سکتا تھا جنرل باجوہ 27 نومبر 2022ء تک اپنی مدت پوری کریں چناں چہ یہ فوراً دوڑ کر جنرل باجوہ کے سسر میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز امجد کے پاس گئے اور ان کے ساتھ ان تمام جنرلز کو لے کر جنرل باجوہ کے گھر پہنچ گئے جو جنرل باجوہ کے اس فیصلے کی وجہ سے ترقی کی دوڑ سے باہر ہو سکتے تھے‘ یہ سب سارا دن وہاں بیٹھے رہے اور آخر میں یہ فیصلہ ہوا جنرل فیض حمید وزیراعظم کو خود اپنے ٹرانسفر کے لیے راضی کریں گے‘ یہ ساری سکیم کیوں کہ جنرل فیض حمید کی تھی لہٰذا یہ اگلے دن وزیراعظم سے ملے اور یوں یہ معاملہ ختم ہوگیا۔

جنرل فیض حمید کو کور کمانڈر پشاور تعینات کر دیا گیا اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم ان کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی تعینات ہوگئے‘ جنرل فیض حمید پشاور چلے گئے لیکن یہ وہاں رہ کر بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کے لیے کام کرتے رہے‘ یہ تبادلے سے قبل پورے ملک میں اپنی فیلڈنگ لگا چکے تھے‘ وزیراعظم ہائوس میں میجرعبدالرحمن کو وزیراعظم کا اے ڈی سی لگا دیا گیا‘ یہ جنرل فیض حمید کے ایس او رہے تھے‘ یہ عمران خان کے ساتھ ان کے کانٹیکٹ پرسن تھے‘ عمران خان ان کے ذریعے جنرل فیض کو پیغام بھجواتے تھے اور جنرل فیض ان کے ذریعے کام کر کے اطلاع وزیراعظم کو دے دیتے تھے‘ یہ وہی آفیسر ہیں جنہوں نے بعدازاں وزیراعظم میاں شہباز شریف کی گفتگو ریکارڈ کر کے جنرل فیض کو بھجوا دی تھی‘ یہ اس وقت کور کمانڈر بہاولپور تھے‘ میجر کی جیب میں ایک ایسا فون ہوتا تھا جس میں صرف جنرل فیض حمید کا نمبر تھا‘ وزیراعظم کا اے ڈی سی وہ ڈائل کرکے فون جیب میں ڈال لیتا تھا اور دوسری طرف جنرل فیض بہاولپور میں بیٹھ کر وہ گفتگو ریکارڈ کرتے رہتے تھے‘ یہ ٹیپ بعدازاں زمان پارک میں عمران خان تک پہنچ جاتی تھی اور یہ شہباز شریف کے فیصلوں اور سوچ کو دیکھ کر اپنا لائحہ عمل طے کرتے تھے‘ عمران خان کو ان ٹیپس سے پتا چلا میاں نواز شریف حکومت سے مطمئن نہیں ہیں اور یہ شہباز شریف کو استعفیٰ دلوا کر الیکشن میں جانا چاہتے ہیں‘ مریم نواز‘ نوازشریف اور شہباز شریف کے درمیان آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن سے متعلق جو گفتگو ہوتی تھی وہ بھی عمران خان تک پہنچتی رہی اور عمران خان مختلف ذرائع سے یہ ٹیپس آصف علی زرداری اور مولانا تک پہنچا دیتے تھے‘

ایک ٹیپ مولانا فضل الرحمن کے سمدھی حاجی غلام علی سے متعلق بھی تھی‘ یہ اس وقت کے پی میں گورنر تھے‘ وزیراعظم کسی سے ان کی کرپشن سے متعلق بات کر رہے تھے اور یہ بہاولپور میں ریکارڈ ہو گئی‘ مولانا اس زمانے میں کے پی کی نگران حکومت میں پارٹنر تھے‘ ان کے وزراء کے کارنامے بھی وزیراعظم کے آفس میں ڈسکس ہوئے اور یہ بھی ریکارڈ ہو کر بہاولپور سے زمان پارک پہنچے اور بعدازاں مولانا تک آئے‘ یہ سلسلہ چلتا رہنا تھا لیکن عمران خان نے جذباتی ہو کر ستمبراوراکتوبر2022ء میں اپنی ٹیم کے ذریعے ان ریکارڈنگ کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر ریلیز کر دیا جس کے بعد وزیراعظم کا اے ڈی سی میجرعبدالرحمن پکڑا گیا اور اس کے اعتراف پر بات جنرل فیض حمید کے فون تک چلی گئی تاہم ویراعظم شہباز شریف نے تحریری طور پر میجرعبدالرحمن اور جنرل فیض حمید کو معاف کر دیا ورنہ دوسری صورت میں ان دونوں کا کورٹ مارشل ہو سکتا تھا اس معافی میں ایک صاحب نے اہم کردار ادا کیا تاہم عمران خان کی اس حماقت سے جنرل فیض حمید اور خان کے درمیان پہلی مرتبہ تلخ کلامی ہوئی لیکن اس سے قبل پشاور میں ایک اور واقعہ بھی پیش آیا‘ یہ واقعہ مئی 2022ء میں اس وقت پیش آیا جب جنرل فیض حمید وہاں کور کمانڈر تھے (باقی اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے)۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)


ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…