بدھ‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

جنرل فیض حمید کے کارنامے

datetime 20  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت کے جج تھے‘ میاں نواز شریف کے مقدمات ان کی عدالت میں زیر سماعت تھے‘ احتساب عدالت میں ان کی تقرری میاں نواز شریف نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیرقانون بیرسٹر ظفراللہ خان کے ذریعے خود کرائی تھی‘ اس کی وجہ ان کے ایک بزنس مین دوست تھے‘ یہ دوست جج ارشد ملک کے ذاتی دوست تھے‘ میاں صاحب کو ایک ایسا جج چاہیے تھا جو جنرل فیض حمید کے دبائو میں نہ آئے اور ان کے ساتھ انصاف کر سکے‘ ان کے دوست نے جج ارشد ملک کا نام دیا اور ساتھ ہی انہیں یقین دلایا یہ مر جائے گا لیکن بے وفائی نہیں کرے گا یوں ارشد ملک اس احتساب عدالت نمبر دو کے جج تعینات ہو گئے جس میں میاں صاحب کے مقدمات چل رہے تھے‘ جج صاحب کامن دوست کے ذریعے میاں نواز شریف سے رابطے میں تھے‘ یہ ان کے وکلاء کی مدد بھی کر رہے تھے‘ 24دسمبر 2018ء کو العزیزیہ سٹیل مل کا فیصلہ تھا‘ جج صاحب نے فیصلہ تیار کر لیا اور اس کے مطابق میاں نواز شریف نے باعزت بری ہونا تھا‘ ملک صاحب فیصلے سے تین دن قبل کامن دوست کے گھر آئے‘ انہیں مبارک باد پیش کی اور فیصلے کے بعد میاں صاحب سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ میاں صاحب سے پوچھا گیا‘ میاں صاحب نے جج صاحب کو فوراً دعوت دے دی‘ اس کے بعد جج صاحب نے شرماتے ہوئے پوچھا ’’کیا میں اپنی فیملی کو بھی میاں صاحب کے گھر لے جا سکتا ہوں‘‘ ان کی یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی‘ قصہ مختصر جج صاحب اپنے گھر واپس چلے گئے‘ دوسرے دن کامن دوست نے جج صاحب سے رابطہ کیا لیکن غیرمتوقع طور پر ان سے رابطہ نہیں ہو سکا‘ جج صاحب نے رنگ بیک بھی نہیں کیا‘ کامن دوست کا ماتھا ٹھنکا اور وہ جج صاحب سے مسلسل رابطہ کرتا رہا مگر دوسری طرف سے مسلسل سناٹا رہا‘ رات ہو گئی‘ اگلے دن فیصلہ تھا‘ میاں صاحب کو بھی بے چینی ہو گئی اور وہ اس بے چینی میں کامن دوست کے گھر چلے گئے‘ دوست نے انہیں کھل کر بتا دیا جج صاحب سے رابطے منقطع ہو چکے ہیں‘ میاں صاحب سمجھ گئے‘ بہرحال اگلے دن 24 دسمبر 2018ء کو جج ارشد ملک نے العزیزیہ سٹیل مل میں کرپشن کے الزام میں سات سال قید کی سزا سنا دی‘ فیصلے سے دو دن بعد جج صاحب نے کامن دوست سے رابطہ کیا اور منت کے لہجے میں ملاقات کی درخواست کی‘ ملاقات طے ہو گئی۔

جج ارشد ملک آئے اور ہاتھ جوڑ کر دوست کے سامنے بیٹھ گئے‘ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ جج صاحب نے اس کے بعد بتایا ہماری آخری ملاقات کے بعد مجھے جنرل فیض حمید کے سٹاف آفیسر کا فون آیا اور مجھے اگلے دن ڈی جی کے دفتر بلایا گیا‘ میں نے معذرت کر لی لیکن اس کا کہنا تھا ملاقات ضروری ہے سر‘ آفیسر نے لفظ ضروری پر زور دیا تھا‘ میں انکاری رہا لیکن دوسرے دن ان کی گاڑیاں آ گئیں اور وہ لوگ مجھے لے گئے‘ مجھے پہلے ملاقاتی کمرے میں بٹھایا گیا‘ پانی اور چائے پوچھی گئی لیکن میں نے معذرت کر لی‘ اس کے بعد ایک آفیسر آیا‘ اس کے ہاتھ میں بڑی سکرین والا (ٹیبلٹ) موبائل فون تھا‘ اس نے وہ میرے سامنے رکھ دیا‘ سکرین پر ایک ویڈیو کلپ ’’پاز‘‘ تھا‘ اس نے پاز کا بٹن پش کیا اور کلپ چلنا شروع ہو گیا‘ میں وہ دیکھ کر کانپ گیا‘ وہ میرا کلپ تھا‘ وہ غیراخلاقی تھا‘ میری جوانی کی غلطی تھی‘

میں کسی دوست کے فلیٹ پر تھا اور وہاں ’’شوٹ‘‘ کیا گیا تھا‘ وہ دیکھ کر میرے سردی میں پسینے چھوٹ گئے‘ میں کانپ گیا‘ میں بہو بیٹیوں والا ہوں‘ میرا پورا خاندان ہے اگر وہ کلپ کسی کے سامنے آ جاتا تو میں نوکری‘ عزت اور زندگی تینوں سے محروم ہو جاتا‘ میں شدید پریشان تھا‘ وہ کلپ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ دفتر سے ایک اور آفیسر نکلا اور اس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کر دیا‘ پہلے آفیسر نے ٹیبلٹ بند کر دیا اور وہ دونوں مجھے لے کر جنرل فیض حمید کے پاس پہنچ گئے‘ جنرل مجھے اٹھ کر ملا‘ میرے ساتھ بغل گیر ہوا‘ پرانے تعلقات کا حوالہ دیا‘ مجھے تسلی دی اور پھر کہا ’’ملک صاحب آپ اور میں دونوں ملک کے لیے کام کر رہے ہیں‘ شریفوں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے‘ یہ جہاد کا وقت ہے‘ آپ ہمارا ساتھ دیں تاکہ ہم یہ گند صاف کر سکیں‘ آپ نے بس ہمارے ساتھ کوآپریٹ کرنا ہے‘‘ میں خاموشی کے ساتھ جنرل فیض حمید کو دیکھتا رہا‘ اس دوران ہماری ملاقات کا وقت ختم ہو گیا‘ مجھے باہر لے جایا گیا اور سلام کر کے رخصت کر دیا گیا‘ میرا ڈرائیور منگوا لیا گیا تھا‘ میں اس کے ساتھ دفتر آ گیا‘ جج ارشد ملک کے بقول اگلے دن مجھے فیصلہ دیا گیا اور میں نے چپ چاپ اس پر دستخط کر دیے(وہ فیصلہ پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر نے لکھا تھا) جج صاحب اس کے بعد اٹھے اور کامن دوست کے گھٹنے پکڑ لیے‘ وہ دل سے شرمندہ تھے۔

جج ارشد ملک میاں صاحب کے دوست کے پرانے دوست تھے‘ ان کی ان کے گھر دو مزید لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی‘ ایک پراپرٹی ڈیلر تھا اور دوسرا آج کے سینیٹر ناصر بٹ تھے‘ جج صاحب احساس گناہ کے شکار تھے‘ وہ شریف فیملی سے معافی مانگنا چاہتے تھے‘ انہوں نے ’’کامن فرینڈ‘‘ سے دو تین مرتبہ درخواست کی لیکن انہوں نے معذرت کر لی‘ جج نے اس کے بعد پراپرٹی ڈیلر اور ناصر بٹ سے رابطہ کیا اور شریف فیملی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ناصر بٹ نے اس کی ملاقات سعودی عرب میں حسین نواز سے طے کرا دی‘ جج صاحب وہاں گئے‘ مسجد نبوی میں ان کی حسین نواز سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے ان سے وہاں معافی مانگی‘ یہ ملاقات باقاعدہ ریکارڈ کی گئی‘ جج کی گفتگو اور اعترافات بھی ریکارڈ ہوئے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے جج اعجاز الاحسن کے بارے میں بھی انکشافات کیے‘ ناصر بٹ نے خفیہ کیمرے کے ذریعے راولپنڈی میں بھی جج سے مختلف ملاقاتوں کے دوران بے شمار چیزیں ریکارڈ کی تھیں‘ میاں نواز شریف اس وقت جیل میں تھے‘ جون 2019ء میں شریف فیملی نے جج ارشد ملک کی ویڈیو میڈیا کے سامنے پیش کرنے فیصلہ کیا‘ ناصر بٹ اس وقت راولپنڈی میں تھے‘

میاں صاحب نے انہیں جیل میں ملاقات کے لیے بلایا‘ یہ گئے لیکن ان کی ملاقات نہ ہو سکی‘ میاں صاحب نے اس کے بعد انہیں اپنے ایک قریبی دوست کے ذریعے پیغام دیا آپ فوراً لندن چلے جائیں‘ ناصر بٹ نے انکار کر دیا لیکن پھر انہیں سختی سے کہا گیا آپ فوراً لندن جائیں اور وہاں پہنچ کر مریم نواز کو فون کریں‘ ناصر بٹ نے فلائٹ لی اور لندن چلے گئے اور وہاں سے مریم نواز کو فون کیا اور اس کے بعد چھ جولائی 2019ء کو مریم نواز نے لاہور میں پریس کانفرنس کی اور جج ارشد ملک کی ویڈیو چلا دی‘ اس ویڈیو سے جنرل قمر جاوید باجوہ بہت ڈسٹرب ہوئے‘ شریف فیملی نے جنرل باجوہ کے ایک دوست (میرا شک ہے یہ شجاعت عظیم تھے) کے ذریعے انہیں یہ اطلاع دی اس ویڈیو کے اگلے دو حصے زیادہ خطرناک ہیں‘ ان میں سپریم کورٹ کے ججز بالخصوص جسٹس اعجاز الاحسن کے کارنامے بھی شامل ہیں‘ یہ صورت حال جنرل فیض حمید کے لیے بھی پریشان کن تھی‘ بہرحال قصہ مختصر جنرل فیض حمید نے اگلی دو ٹیپس کے بدلے میاں نواز شریف کی رہائی کا سودہ کر لیا‘ میاں صاحب سے جیل میں ملاقاتیں شروع ہوئیں جن کی براہ راست نگرانی جنرل فیض حمید خود کرتے تھے‘ یہ فیصلہ ہوا میاں صاحب کو میڈیکل گرائونڈز پر لندن جانے کی اجازت دے دی جائے گی اور یہ اس کے بعد بے شک واپس نہ آئیں‘ ان کی غیرموجودگی میں ان کے خلاف عدالتوں سے کوئی فیصلہ نہیں ہو گا‘ اس کے بعد میاں صاحب کی میڈیکل رپورٹس میں پلیٹ لیٹس گرنا شروع ہوئے اور یہ گرتے چلے گئے۔

مجھے اکتوبر 2019ء میں جیل کے ایک ڈاکٹر نے فون کیا اور میا ںصاحب کی میڈیکل رپورٹس دکھا کر بتایا آپ خبر دے دیں میا ںصاحب شدید علیل ہیں اور اگر ان کا فوری علاج نہ ہوا تو ان کی جان کو خطرہ ہے‘ میں نے یہ رپورٹس جنرل ریٹائرڈ اظہر کیانی کو بھجوائیں اور ان سے مشورہ مانگا‘ ان کا فوری جواب تھا ’’میاں صاحب اس کنڈیشن میں زندہ کیسے ہیں؟ میں حیران ہوں‘‘ جنرل اظہر کیانی دوسرے دن خود بھی معائنے کے لیے جیل گئے‘میں نے فوری طور پر میاں نواز شریف کی صحت کی خبر بریک کر دی جس سے پورے پاکستان میں طوفان برپا ہو گیا‘ مجھے مدت بعد پتا چلا میں بھی اس کھیل میں استعمال ہو گیا تھا‘ بہرحال قصہ مختصر میاں نواز شریف نے اکتوبر میں لندن جانا تھا لیکن معاملہ ایک ایشو پر اٹک گیا تھا‘ جنرل فیض حمید چاہتے تھے میاں صاحب کو سٹریچر پر لٹا کر جہاز میں سوار کیا جائے جب کہ میاں صاحب کا کہنا تھا میں اپنے قدموں پر چل کر جہاز تک جائوں گا‘ یہ معاملہ نومبر تک چلتا رہا‘ آخر میں فیصلہ ہوا میاں صاحب بے شک چل کر چلے جائیں لیکن یہ لندن میں کوئی بیان نہیں دیں گے‘جنرل فیض حمید نے اس فیصلے کے بعدبشریٰ بی بی کی مدد لی اور بشریٰ بی بی کے ذریعے عمران خان کو قائل کیا گیا‘کیسے؟ یہ آپ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے


ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…