پیر‬‮ ، 17 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

عمران خان کی برکت

datetime 18  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے دو ساتھیوں نے مفلرز خریدنے تھے‘ نیویارک میں سردی شروع ہو چکی ہے‘ سرد ہوا جیکٹس پھاڑ کر جسم سے آر پار ہو رہی تھی‘ 8ویں ایونیو کے ساتھ 39 نمبر گلی کی نکڑ پر ایک سووینئر شاپ تھی‘ ہمارے ساتھیوں نے بنگالی سیلز مین کے ساتھ بارگین شروع کر دی‘ میں انہیں سپورٹ کر رہا تھا‘ کائونٹر پر بیٹھا مالک اچانک سیدھا ہوا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا ’’تم نے فوج سے بہت پیسے کما لیے ہیں‘ تمہیں رعایت لینے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا‘ وہ شدید غصے میں تھا‘ اس کا کہنا تھا ’’تم لوگ وطن فروش ہو‘ تم لوگوں نے اپنا ضمیر فوج کے ہاتھوں بیچ دیا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے بھائی آپ میرے ساتھ بلاوجہ ناراض ہو رہے ہیں‘‘ ۔

اس کا بلڈ پریشر بڑھ گیا اور اس نے مجھے اندھا دھند سنانی شروع کر دیں‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ میں نے آخر میں اس سے ہاتھ ملانے کی کوشش کی لیکن وہ میرے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں ہوا‘ میں چپ چاپ دکان سے باہر آیا‘ میرے ساتھیوں نے مجھے تسلی دی لیکن میں سارا دن اپنے آپ سے پوچھتا رہا‘ آخر وہ شخص مجھ سے نفرت کیوں کر رہا ہے‘ کیا اپنی رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا جرم ہے‘ کیا ہم سب کو ایک طریقے سے سوچنا چاہیے؟ زندگی‘ وطن اور نظریات کے بارے میں جو خیالات اس کے ہیں کیا میرے خیالات بھی وہی ہونے چاہییں اور اگر میں اس کے مطابق نہیں سوچتا تو کیا مجھے ملک اور انسانیت دونوں سے بے دخل کر دینا چاہیے؟ میں سارا دن یہ سوچتا رہا۔

میں دوسرے دن دوبارہ اس کی دکان کے سامنے سے گزرا‘ وہ گاہکوں کے ساتھ مصروف تھا‘ میں نے دور سے اسے سلام کیا‘ وہ دوڑ کر باہر آیا اور گزشتہ روز کی بدتمیزی پر شرمندگی کا اظہار کرنے لگا‘ میں نے اسے گلے لگایا اور اس کے ساتھ گپ شپ کرنے لگا‘ اس کا کہنا تھا میں آپ کا بہت بڑا فین تھا‘ میں آپ کا ہر پروگرام دیکھتا تھا‘ آپ کے پروگرام کے شروع میں کارٹون آتے تھے لیکن پھر میں نے پروگرام دیکھنا بند کر دیا‘ میں نے دماغ پر زور دیا‘ میرے سابق پروگروام کے کسی ٹائٹل میں کارٹون نہیں چلتے تھے‘ میں نے پوری میڈیا انڈسٹری کی طرف ذہن دوڑایا تو یاد آیا سہیل وڑائچ صاحب کے شو کا ٹائٹل کارٹون فگرز یا سکیچ سے شروع ہوتا ہے‘ مجھے محسوس ہوا یہ مجھے سہیل وڑائچ سمجھ کر 21 توپوں کی سلامی دے رہا ہے۔

میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا بھائی کارٹون فگرز کے ساتھ شروع ہونے والا پروگرام میرا نہیں سہیل وڑائچ صاحب کا ہے‘ آپ اگر اجازت دیں تو میں آپ کی دکان کا ایڈریس وڑائچ صاحب کو دے دیتا ہوں تاکہ وہ جب کبھی یہاں آئیں تو مذمت کا اپنا حصہ وصول کر لیں‘ وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر مسکرا کر بولا ’’سوری مجھ سے مس ٹیک ہو گئی‘‘ میں نے اس کے بعد اس سے عرض کیا ’’لیکن سہیل وڑائچ بھی سیاسی پروگرام نہیں کرتے‘ ان کا شو منفرد ہے‘ یہ مشہور لوگوں کے چل پھر کر انٹرویوز کرتے ہیں شاید اسی لیے ان کا شو چل رہا ہے‘‘ یہ سن کر اس نے تھوڑی دیر سر کھجایا اور پھر زیادہ زور دے کر بولا ’’لیکن اس کے باوجود تم سب لوگ بکے ہوئے ہو‘ تم فوج کے غلام ہو‘‘ یہ سن کر میں نے اسے ایک بار پھر گلے لگایا اور اس سے اجازت لے کر ہوٹل کی طرف واپس چل پڑا اور سارا راستہ عمران خان کو دعائیں دیتا رہا۔

عمران خان کی برکت سے پاکستان میں تین بڑی تبدیلیاں آئیں اگر عمران خان کے سارے جرائم معاف کر دیے جائیں تو بھی ان کے تین جرائم ناقابل معافی رہیں گے‘ ان کا پہلا جرم اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں دوبارہ دخول ہے‘ جنرل پرویز مشرف کے بعد اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر جا رہی تھی‘ پیپلز پارٹی 2008ء میں اپنی طاقت سے اقتدار میں آئی تھی‘ یہ جیسے تیسے پانچ سال بھی پورے کر گئی‘ 2013ء میں الیکشن ہوئے اور ان میں سیاسی انجینئرنگ نہیں ہوئی‘ یہ معاملہ چلتا رہتا تو دس برسوں میں جمہوریت مکمل طور پر آزاد ہو جاتی لیکن عمران خان جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو سیاست میں لے کر آئے اور اس کے بعد جمہوریت مکمل طور پر ختم ہوگئی‘ جنرل عاصم منیر آرمی چیف بنے تو انہوں نے شروع میں فوج کو مکمل طور پر غیر سیاسی کر دیا تھا‘ مجھے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بتایا’’ مئی 2023ء تک فوج مکمل غیر سیاسی ہو چکی تھی‘ ہم سے کوئی فوجی افسر سیاسی گفتگو یا مطالبہ نہیں کرتا تھا‘‘۔
سید مرادعلی شاہ کی بات غلط نہیں تھی‘ یہ سلسلہ اگر چلتا رہتا تو 2023ء کے آخر تک صورت حال مکمل تبدیل ہو جاتی لیکن عمران خان کے سوشل میڈیا بیانیے اور مظاہروں نے ملک کی مت مار کر رکھ دی‘ آخری کسر 9مئی نے پوری کر دی‘ اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ پوری طاقت سے واپس آئی اور اب اس کے واپس جانے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں‘ عمران خان آج بھی روز سوشل میڈیا کے ذریعے ان بند راستوں کے سامنے پتھروں کی دیواریں بناتا چلا جا رہا ہے اور یہ عمران خان کا ناقابل معافی جرم ہے۔

عمران خان کا دوسرا جرم ملک کی دونوں روایتی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دوبارہ زندگی دینا ہے‘ یہ اپنی مدت پوری کر چکی تھیں‘ پیپلز پارٹی کو آصف علی زرداری نے تقریباً زمین میں گاڑھ دیا تھا اور میاں نواز شریف کی سیاست ن لیگ کو دفن کر چکی تھی لیکن عمران خان کی وجہ سے یہ لوگ واپس بھی آئے اور یہ ازل کے دشمن اب اکٹھے اقتدار کو انجوائے بھی کر رہے ہیں‘ عمران خان روز ان کے باہمی جوڑ میں ایلفی ڈال کر اسے مضبوط سے مضبوط تر بھی بناتا جا رہا ہے اور عمران خان کا تیسرا ناقابل معافی جرم بدتمیز کلچر ہے‘ اس نے پوری قوم کو بدتمیز بنا دیا‘ لوگ لوگوں کے گلے پڑ رہے ہیں‘ میاں نواز شریف سے ہزار اختلاف لیکن عمران خان کے دور میں لندن میں شریف فیملی کے گھر کے سامنے کیا ہوتا رہا؟ مریم اورنگ زیب کے ساتھ آکسفورڈ سٹریٹ اور عطاء تارڑ کے ساتھ برطانیہ میں کیا ہوا؟ عمرہ کے دوران مسجد نبویؐ میں وفاقی وزراء کے ساتھ کیا کیا گیا اور آج سے چند دن قبل شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ ان کی بیگم کے سامنے کیا سلوک کیا گیا؟۔

آپ کوئی بھی سوشل میڈیا ایپ کھول لیں اور نیچے کمنٹس پڑھنا شروع کر دیں‘ آپ کی آنکھوں کو شرم آ جائے گی لیکن لکھنے والوں کو ذرا برابر شرم نہیں آتی‘ اس کلچر کا صرف اور صرف ایک شخص ذمہ دار ہے اور اس کا نام عمران خان ہے‘ آپ 2025ء سے 2014ء تک پیچھے سفر کرنا شروع کریں‘ آپ کو عمران خان جگہ جگہ یہ اعلان کرتا نظر آئے گا‘ یہ لوگ گلی میں نہیں نکل سکیں گے‘ شادیوں اور جنازوں میں شریک نہیں ہو سکیں گے‘ یہ مسجدوں میں نماز نہیں پڑھ سکیں گے اور یہ ہوا‘ کیا یہ کلچر درست ہے؟ اگر ہاں تو پھر مبارک ہو ہم ایک اصلی اور سچی ریاست مدینہ بنانے میں کام یاب ہو چکے ہیں اور اگر یہ غلط ہے تو پھر ہمیں ذمہ داروں کا تعین کرنا ہو گا اور ان ذمہ داروں میں جنرل آصف غفور اور جنرل فیض حمید بھی شامل ہیں۔
یہ زومبیز ان لوگوں نے عمران خان کے ساتھ مل کر تخلیق کیے اور یہ آخر میں فوج ہی کے گلے بھی پڑ گئے‘ انہوں نے شہداء کی یادگاریں بھی نہیں چھوڑیں اور جب تک (نعوذ باللہ) پاکستان پر مودی قابض نہیں ہو جاتا ان کے کلیجوں میں ٹھنڈ نہیں پڑے گی‘ مجھ سے ایک بار ملک کی ایک طاقتور شخصیت نے دو سوال کیے تھے‘ ایک عمران خان کیا چیز ہیں؟ میں نے عرض کیا ان پر نحوست کا سایہ ہے‘ یہ منحوس ہیں‘ جو بھی شخص اس کے ساتھ جڑتا ہے اس کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے‘ آپ کوئی ایک شخص بتائیں جو عمران خان کے ساتھ جڑا ہو اور اس کی عزت بچ گئی ہو حتیٰ کہ بشریٰ بی بی کو دیکھ لیں۔

یہ ایک معزز خاتون تھیں‘ مانیکا خاندان میں ان کی عزت ہوتی تھی لیکن پھر عدالتوں میں ان کے اپنے وکلاء کے منہ سے ان کے ایام کی باتیں ہوئیں اور اب یہ انٹرنیشنل میڈیا میں جادوگرنی بن چکی ہیں‘ ان کا پورا خاندان رل گیا اور یہ خود جیل میں ہیں‘ آپ جنرل باجوہ‘ جنرل فیض حمید‘ جنرل آصف غفور‘ جسٹس عمر عطاء بندیال‘ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کو دیکھ لیں‘ آپ ان کو بھی چھوڑ دیں‘ آپ مولانا طارق جمیل کو دیکھ لیں‘ لوگ ان کے ہاتھ چوما کرتے تھے لیکن آج مولانا کہاں ہیں؟ کیا کسی شخص کی عزت بچی؟ یہ عمران خان کی نحوست کا کمال ہے جو بھی ان کے ساتھ جڑا بے عزت اور بے وطن ہو کر رہ گیا اور دوسرا سوال تھا لوگ عمران خان کے دیوانے کیوں ہیں؟ میں نے عرض کیا ’’پاکستان میں ایک خاص نوعیت کا پاگل پن تھا‘ عمران خان کی شکل میں اس پاگل پن کو لیڈرشپ مل گئی لہٰذا یہ اب گلی گلی ناچ رہا ہے۔

آپ عمران خان کے ماننے والوں کا کمال دیکھیں‘ یہ عثمان بزدار‘علی امین گنڈا پور اور سہیل آفریدی جیسے ہیروں کے باوجود عمران خان کو وژنری سیاست دان اور ملک کا مستقبل سمجھ رہے ہیں‘ آپ حد دیکھیں فوج عمران خان کو لے آئے تو یہ فرشتہ ہو جاتی ہے اور اگر یہ ان سے ملاقات سے انکار کر دے تو یہ بری ہو جاتی ہے اور جو لوگ سات ہزار شہید فوجیوں کی بات کریں لوگ ان کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیتے ہیں‘ بشریٰ بی بی کے اپنے وکیل کروڑوں روپے فیس لے کر جب عدالت میں ان کے ایام گننا شروع کر دیتے ہیں تو وہ پوتر ہو جاتے ہیں اور شاہ زیب خان زادہ جیسا صحافی ان کے سوال پڑھنے کی جرات کر بیٹھتا ہے تو اسے گستاخ قرار دے دیا جاتا ہے‘ یہ کیا ہے؟ یہ عمران خان کی وہ برکت ہے جو اس وقت گلی گلی میں تقسیم ہو رہی ہے اور اس برکت کو سمیٹنے والوں میں ہمارے جیسے صحافی بھی شامل ہیں‘ہم وہ لوگ تھے جو عمران خان کو ہیرو سمجھتے تھے لہٰذا آج ہم بھی ان کی نحوست کا شکار ہیں۔

موضوعات:



کالم



عمران خان کی برکت


ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…