ہفتہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

70برے لوگ

datetime 16  ‬‮نومبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ تھے‘ میری ان سے 1999ء میں پہلی ملاقات ہوئی اور آہستہ آہستہ دوستی میں تبدیل ہو گئی‘ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم روزانہ ملتے تھے‘ 2020ء میں ڈاکٹر صاحب بیمار ہوئے اور دنوں میں بستر مرگ پر پہنچ گئے‘ ڈاکٹر صاحب پبلک ریلیشن کے ماہر تھے‘ یہ جس سے بھی ملتے تھے اسے دوست بنا لیتے تھے‘ ان کی یوں ہی چلتے چلتے جنرل فیض حمید سے ملاقات ہو گئی اور ڈاکٹر صاحب نے انہیں بھی دوست بنا لیا‘ وہ اس وقت بریگیڈئیر تھے‘ بہرحال قصہ مختصر فیض حمید میجر جنرل بنے اور آئی ایس آئی میں ڈی جی سی لگ گئے‘ یہ ان کی دوستی کے زیادہ قریبی اور اچھے دن تھے‘ ڈاکٹر صاحب میاں شہباز شریف اور ان کے صاحب زادے سلیمان شہباز کے بھی بہت قریب تھے یوں ایک مثلث بنی‘ مثلث کے ایک سرے پر ڈاکٹر اسلم کھڑے تھے‘ دوسرے پر شہباز شریف فیملی اور تیسرے سرے پر جنرل فیض حمید۔

ڈاکٹر میرے بہت قریب ہونے کے باوجود مجھ سے زیادہ تر باتیں خفیہ رکھتے لیکن جب آپ روز کے ملاقاتی ہوں اور ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے ہوں تو خفیہ باتیں بھی زیادہ خفیہ نہیں رہتیں چناں چہ میں زیادہ تر چیزیں سمجھ جاتا تھا۔ جنرل فیض اور شہباز شریف کے درمیان پیغام رسانی بھی ڈاکٹر اسلم کے ذریعے ہوتی تھی‘ آپ ڈاکٹر صاحب کا جنرل فیض حمید پر اثر کا اندازہ اس حقیقت سے لگا لیجیے‘2018ء کے الیکشنز میں اوکاڑہ کی ساری سیٹیں پی ٹی آئی کے پاس جا رہی تھیں‘ لاہور میں بھی تباہی کا پلان تھا لیکن پھر حمزہ شہباز نے ڈاکٹر اسلم کے ذریعے دس حلقے مانگے اور وہ سارے حلقے ایک فون کال کے ذریعے ن لیگ کو ملے اور اس میں سید صمصام بخاری کی سیٹ بھی شامل تھی‘ شاہ صاحب کا حلقہ این اے 141 تھا‘ یہ جیت کی تیاری کر کے بیٹھے تھے لیکن پھر فون آیا اور انہیں سیکٹر کمانڈر کے صوفے پر اطلاع دے دی گئی ’’شاہ جی اگلی بار‘‘ اور یہ مایوس ہو کر دفتر سے نکل گئے‘ ڈاکٹر صاحب جب بیمار ہوئے تو ان کے علاج کی نگرانی بھی جنرل فیض حمید کا سٹاف کرتا تھا اور ہمیں ان سے ملاقات کے لیے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی تھی۔

حنیف عباسی کوجولائی 2018ء میں ایفی ڈرین کیس میں انسداد منشیات کی عدالت سے عمرقیدکی سزا ہو گئی‘ یہ سارا عمل جنرل فیض حمید کے ذریعے ہوا تھا‘ عباسی صاحب بھی ڈاکٹر صاحب کے بہت قریبی دوست تھے‘ ڈاکٹر صاحب نے کئی مرتبہ عباسی صاحب کی سفارش کی لیکن جنرل فیض حمید ہنس کر ٹال جاتے تھے‘ سزا کے بعد بھی ڈاکٹر اسلم کوشش کرتے رہے مگر جنرل فیض ہنس کر جواب دیتے تھے ’’عباسی کو بھول جائیں‘ یہ میری زندگی میں باہر نہیں آئے گا‘‘ ایک بار میرے سامنے بھی بات ہوئی مگر جنرل فیض حمید کا جواب تحقیر آمیز تھا۔
بہرحال قصہ مختصر ایک دن ڈاکٹر اسلم میرے پاس آئے اور مجھے تیار ہونے کا حکم دیا‘ میں مہینے کے تیس دن جاگنگ ٹروزر‘ ٹی شرٹ اور جاگرز میں رہتا ہوں‘ مجھے یہ کپڑے زیادہ اچھے اور ایزی محسوس ہوتے ہیں‘ میں اس دن بھی ان کپڑوں میں آ گیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے مجھے واپس بھجوایا اور فارمل ڈریس پہننے کا کہا‘ میں ان کی ہدایت پر ’’ڈھنگ کے کپڑے‘‘ پہن کر آ گیا اور وہ مجھے ایف ایٹ سیکٹر کے ایک گھر میں لے گئے‘ ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو سامنے جنرل فیض حمید بیٹھے تھے۔

یہ ملاقات میرے لیے غیرمتوقع تھی‘ ڈرائنگ روم میں مرحوم عرفان صدیقی بھی تھے‘ جنرل فیض حمید کھڑے ہو کر ہمیں ملے اور ہم سائیڈ پر بیٹھ گئے‘ جنرل فیض ڈاکٹر اسلم سے مخاطب ہوئے آپ پروفیسر صاحب کو سمجھائیں حالات بدل گئے ہیں‘ نواز شریف کی نوکری بند کریں اور آگے بڑھیں‘ ڈاکٹر اسلم نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا سر میں سمجھاتا ہوں‘ اس کے بعد جنرل فیض حمید نے عرفان صدیقی کو لمبا لیکچر دیا‘ لیکچر کے آخر میں عرفان صدیقی نے علامہ اقبال کا کوئی شعر پڑھا جس کا مطلب’’ جس رزق سے آتی ہے پرواز میں کوتاہی‘‘ ٹائپ تھا‘ جنرل فیض کا رنگ سرخ ہو گیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنا وہ فلسفہ بیان کیا جس کی وجہ سے میں آج یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ ان کا کہنا تھا پاکستان کی ترقی کے راستے میں 70لوگ حائل ہیں‘ یہ لوگ جب تک نہیں جائیں گے ملک کہیں نہیں جا سکے گا‘ میں نے یہ سن کر غور سے ان کی طرف دیکھا تو مجھ سے مخاطب ہوئے ’’ ان 70 لوگوں میں 20 آپ اینکر لوگ ہیں‘ آپ نے ملک کی مت مار دی ہے‘ آپ جانتے ہی نہیں آپ ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں‘ خدا خوفی کریں اور ملک کو چلنے دیں‘‘۔

میں نے عرض کیا ’’سر صرف 20 کیوں؟ میڈیا انڈسٹری میں ٹوٹل 200 اینکرز ہوں گے کیا باقی 180 ملک کو ترقی کے ٹریک پر لا رہے ہیں؟‘‘ جنرل فیض ہنسے اور کہا ’’نہیں یہ بھی برے ہیں لیکن ان 20 لوگوں پر عوام یقین کرتے ہیں‘ لوگ سید طلعت حسین‘ نصرت جاوید‘ حامد میر‘ کامران خان اور جاوید چودھری کو مخلص سمجھتے ہیں‘ آپ لوگ جو کہتے ہیں لوگوں کو اس پر یقین آ جاتا ہے اور آپ لوگ غلط کہتے ہیں‘ آپ لوگوں کو مس لیڈ کرتے ہیں‘‘ میں اس وقت کیوں کہ ہاتھی کے سامنے بیٹھا تھا اور ایسی صورت حال کے بارے میں بزرگ کہتے ہیں انسان کے پاس خاموشی اور برداشت کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا اور ظاہر ہے میں بھی انسان تھا چناں چہ میں نے ’’ویل لیفٹ‘‘ کیا اور پوچھا ’’اور باقی پچاس کون ہیں سر!‘‘۔
جنرل فیض حمید نے فوراً جواب دیا ’’20 ضدی کامریڈ جج‘ 20 سو کالڈ سوشل میڈیا انفلوئنسرز اور دس جمہوریت کے بخار میں مبتلا سیاست دان‘ یہ ٹوٹل 70 لوگ اس ملک کی تباہی کی جڑ ہیں‘ جب تک یہ نہیں جائیں گے ملک کی سمت درست نہیں ہو سکتی‘‘ ہمارے سامنے ٹی وی سکرین تھی‘ اس وقت سکرین پر خواجہ سعد رفیق کے ٹکرز چل رہے تھے‘ ان کے کیس کی سماعت تھی‘ وکیل نے جج صاحب سے خواجہ صاحب کو جیل سے عدالت لانے کی درخواست کی تھی لیکن وہ درخواست غالباً مسترد ہو گئی تھی‘ جنرل فیض حمید نے اونچی زبان میں ٹکر پڑھے اور اس کے بعد انگریزی اور پنجابی میں کہا ’’لک دِس آنیسٹ ڈیموکریسی چیمپیئن‘ ہزار پلاٹ کھا گیا‘ ریلوے کے گالف کورس میں کھوتے باندھ دیے اور ایمان داری اور جمہوریت کا بخار بھی جاری ہے‘ یہ ہیں سپیڈ بریکر‘‘ ۔
اس کے بعد وہاں سناٹا طاری ہو گیا‘ یہ سناٹا ایک فون کال نے توڑا‘ جنرل فیض حمید کے موبائل پر کال آئی اور وہ بڑی توجہ سے اسے سننے میں مصروف ہو گئے‘ وہ بار بار سر سر کہہ رہے تھے اور آخر میں پنجابی میں ’’ہو جائے گا سر‘‘ کہہ کر بات ختم کر دی‘ وہ اس کے بعد ہماری طرف مڑے اور کہا ’’ہاں تو میں کہہ رہا تھا 70لوگ مسئلہ ہیں‘ میرے باس کہتے ہیں ہمیں پانچ ہزار لوگوں کا بندوبست کرنا پڑے گا جب کہ میں انہیں کہتا ہوں نہیں سر ملک کو صرف 70 لوگوں کا سر چاہیے اور بات ختم۔ میں نے عرفان صدیقی کی طرف دیکھا‘ عرفان صدیقی نے میری طرف دیکھا اور پھر ہم دونوں نے سامنے بیٹھے فرعون کی طرف دیکھا اور وہاں سے نکلنے کا بہانہ تلاش کرنے لگے۔

جنرل فیض حمید کا کہنا تھا‘ پاکستان کے لیے چین کے ماڈل کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ ون پارٹی رول ہے‘ صدر ہی سب کچھ ہے‘ اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا‘ میڈیا گورنمنٹ کے مکمل کنٹرول میں ہے‘ آپ وہاں چوں کر کے دکھائیں‘ اگلے دن آپ کی لاش ملے گی‘ ڈیڑھ ارب لوگوں کا ملک ہے وہاں آپ جیسا ایک بھی اینکر نہیں‘ جج اور عدالتیں حکومت کے تابع ہیں‘ پورے ملک کی کسی عدالت میں کوئی سیاسی مقدمہ نہیں‘ پانامہ کیس اگر چین میں ہوتا تو سب کو پھانسی لگ چکی ہوتی اور ان کی قبروں پر فٹ فٹ گھاس ہوتی جب کہ یہاں ابھی تک رسیدیں ہی پوری نہیں ہو رہیں اور پھر یہاں کوئی ڈکی بھائی ہے اور کوئی پھکی بھائی ہے اور پوری قوم اس کے پیچھے پاگل ہو چکی ہے‘ آپ چین میں کوئی ایک سوشل میڈیا انفلوئنسر دکھا دیں‘ وہاں علی بابا کے فائونڈر جیک ما بھی حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں بول سکتے جب کہ یہاں گلی گلی میں بل گیٹس پھر رہے ہیں‘ پرینکس اور توہین کی پوری مارکیٹ بن گئی ہے اور قوم ان کے پیچھے دوڑ رہی ہے‘ یہ ملک ہے یا سرکس ہے؟‘‘ ۔

جنرل فیض رکا‘ موبائل سکرین پر ٹائم دیکھا‘ ڈاکٹر اسلم کی طرف متوجہ ہوا اور بولا ’’ڈاکٹر صاحب کل دوبارہ ملتے ہیں‘ میں نے ابھی ایک میٹنگ میں جانا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے خوش دلی سے مطالبہ مان لیا‘ جنرل فیض اٹھے‘ پہلے عرفان صدیقی سے ہاتھ ملایا اور کہا‘ پروفیسر صاحب آپ باز آ جائیں‘ جیل بڑی سخت ہوتی ہے‘ میاں صاحب اور مریم صفدر سے پوچھ لیں‘ پھر میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور ڈاکٹر صاحب کی طرف مڑ کر بولے ’’آپ نے چودھری صاحب کو سمجھایا‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’سمجھا رہا ہوں جلد سمجھ جائیں گے‘‘ جنرل فیض حمید نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’آپ کر لیں ورنہ مجھے کرنا پڑے گا‘‘ وہ اس کے بعد مڑے‘ ڈاکٹر اسلم کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انہیں لے کر کمرے سے نکل گئے جب کہ عرفان صدیقی اور میں ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



70برے لوگ


ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…

بھکاریوں سے جان چھڑائیں

سینیٹرویسنتے سپین کے تاریخی شہر غرناطہ سے تعلق…

سیریس پاکستان

گائوں کے مولوی صاحب نے کسی چور کو مسجد میں پناہ…

کنفیوز پاکستان

افغانستان میں طالبان حکومت کا مقصد امن تھا‘…

آرتھرپائول

آرتھر پائول امریکن تھا‘ اکائونٹس‘ بجٹ اور آفس…