امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے کہا ’’ایکس لینسی انڈیا سیز فائر کے لیے تیار ہے‘ آپ پلیز اپنی فوج کو روکیں‘‘ اسحاق ڈار نے جواب دیا ’’ہم شروع دن سے نہیں لڑنا چاہتے تھے‘یہ جنگ ہم پر مسلط کی گئی‘ آپ مجھے تھوڑا سا وقت دیں‘ میں مشورہ کر کے آپ کو جواب دیتا ہوں‘‘ مارکو روبیو کے فون سے آدھ گھنٹہ بعد سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان کا فون آ گیا‘ ان کا بھی کہنا تھا ’’انڈیا سیز فائز کے لیے تیار ہے‘‘ اور اس کے بعد کالز کا تانتا بندھ گیا‘ فیصلہ ہوا بارہ بجے سیز فائر کر دیا جائے گا اور یہ اعلان انڈیا کرے گا‘ انڈیا بارہ بجے کو کھسکاتا ہواچاربجے تک لے گیا اور بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مصری نے سیز فائر کا اعلان کر دیا‘ آپ اگر آج بھی یوٹیوب پر وکرم مصری کے اعلان کی فوٹیج دیکھیں تو آپ کو مصری کے چہرے پر مایوسی اور شکست نظر آئے گی‘ وہ واپس جاتے وقت ہارا ہوا جواری محسوس ہورہا تھا بہرحال جنگ ختم ہو گئی لیکن اپنے پیچھے یہ سوال چھوڑ گئی پاکستان نے یہ کمال کیا کیسے تھا؟ یہ سو بلین ڈالر کا سوال ہے‘ آپ بھی ذرا سوچیے پاکستان کا دفاعی بجٹ 8 بلین ڈالر اور بھارت کا 80 بلین ڈالر‘ پاکستان کا کل بجٹ 62بلین ڈالراور بھارت کا بجٹ 600بلین ڈالر‘ بھارت کے فارن ریزروز702بلین ڈالرز اور پاکستان کے کھاتے میں صرف 15بلین ڈالر‘ بھارت کی فوج پاکستانی فوج سے چار گنا اور ائیرفورس پانچ گنا اور پاکستان تنہا اور بھارت کے ساتھ ساری دنیا‘ کیا پھر یہ کمال‘ کمال نہیں تھا؟ جی ہاں یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور پاک فضائیہ اور فوج کا اس کی ذات پر ایمان کا نتیجہ تھا۔
پاکستان نے یہ کمال کیسے کیا میں اس طرف آنے سے قبل آپ کو ایک دل چسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس نے 80برس میں چار سپر پاورز کے ساتھ کام کیا‘ برطانیہ پہلی سپر پاور تھی‘ اس نے دو عالمی جنگیں لڑیں‘ ان جنگوں میں آج کے پاکستان کے جوان اور افسر شامل تھے‘ ان کی ٹریننگ دنیا کی بہترین برٹش فوج نے کی تھی‘ٹریننگ کی یہ روایات آج تک فوج میں موجود ہیں‘ قیام پاکستان کے بعد پاک فوج نے امریکی اکیڈمیز میں ٹریننگ لی‘ہماری ایس ایس جی امریکا نے بنائی تھی‘ 1980ء کی دہائی میں پاک فوج یو ایس ایس آر کے ساتھ لڑتی رہی‘ یہ جنگ امریکا‘ یورپی اتحادیوں اور عربوں کی مدد سے لڑی گئی اور یہ پاکستان نے جیتی بھی‘ نائین الیون کے بعد پاکستان نے دوبارہ امریکا کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی اور یہ 25 سال بعد بھی جاری ہے‘چین دنیا کی نئی سپر پاور ہے اورہم 75 برسوں سے اس کے اتحادی ہیں اور ہم کسی بھی مرحلے پر چین سے دور نہیں ہوئے لہٰذا برطانیہ‘ روس‘ امریکا اور چین ان چار بڑی طاقتوں کی سنگت نے پاکستان اور فوج دونوں میں ایک خاص ذہانت پیدا کر دی ہے‘
ہم گھبراتے نہیں ہیں جب کہ بھارتی فوج کا تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے‘ ان کی چین سے ہلکی پھلکی لڑائی ہوئی یا 1971ء میں اس نے مشرقی پاکستان کی دوری کا فائدہ اٹھایا اور بس‘ پاک فوج 25 برس سے دہشت گردی کی وجہ سے حالت جنگ میں بھی ہے‘ اب تک اس کے 10 ہزار جوان اور افسر شہید ہو چکے ہیں اور یہ اس نوعیت کی جنگ میں دنیا میں سب سے بڑی قربانی ہے‘ دوسرا فیکٹرائیرفورس ہے‘ پاکستان نے 7 جون 1981ء کو اسرائیل کے ہاتھوں عراقی ایٹمی ریکٹر کی تباہی سے دو سبق سیکھے‘ پہلا جلد سے جلد ایٹمی پاور بننا اور دوسراجنگی میدان زمین کی بجائے فضا ہو گا چناں چہ پاکستان کسی بھی حالت میں ان دونوں سے غافل نہیں ہوا‘ انڈیا نے فروری 2019ء اور ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری کے بعد 7.4بلین ڈالر میں دنیا کے سب سے محفوظ اور جدید طیارے رافیل خرید لیے‘ ان کے پاس 36 رافیل تھے‘ پاکستان نے فوری طور پر چین سے جے 10 طیارے لے لیے‘ جے ٹین اور رافیل کے معیار میں ایک اور دس کا فرق تھا لیکن پاکستانی پائلٹس نے پریکٹس سے یہ فرق ختم کر دیا‘ یہ مسلسل دو سال روزانہ جے ٹین سے پریکٹس کرتے رہے‘ یہ لو لیول فلائنگ بھی کرتے تھے اور ریڈار کے بغیر بھی‘ پائلٹس کو کمیونی کیشن بند کر کے بھی پریکٹس کرائی گئی تا کہ دشمن اگر کمیونی کیشن جیم کر دے یا سننا شروع کر دے تو بھی اسے حکمت عملی کا اندازہ نہ ہو سکے‘ پاکستان رافیل کی طاقت سے واقف تھا‘ رافیل پر سپیکٹرا سسٹم لگا ہے‘یہ200کلومیٹر دور سے اپنی طرف آنے والے میزائل کو بھانپ لیتا ہے اور اسے ان لاک کر لیتا ہے‘
یہ میزائلوں کو ضائع کرنے کے لیے ان کے راستے میں الوژن بھی بنا دیتا ہے‘ میزائل اس الوژن کو رافیل سمجھ کر اس سے ٹکرا جاتے ہیں‘ ہمارے پائلٹ اس سے واقف تھے۔
انڈین ائیرفورس کے سکواڈرن 17 نے29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی‘ سکواڈرن امبالا سے اڑا اور اس میں 16 رافیل طیارے تھے‘ حملے کے دوران میراج اور روسی طیارے ایس یو 30 بھی استعمال ہوئے‘ پاکستان نے ان کے سگنل جام کر دیے اور یہ پریشان ہو کر واپس چلے گئے‘ بھارت کا سب سے بڑا اور جدید ائیربیس مغربی بنگال میں بھوٹان کی سرحد کے قریب ہاسی مارا میں ہے وہاں رافیل طیاروں کا سکواڈرن 101 ہے‘ یہ ان کا ایکس لینس ٹریننگ سنٹر ہے‘ انڈیا 29 اپریل کی ناکامی کے بعد سکواڈرن 101 کو میدان میں اتارنے پر مجبور ہو گیااور یہ 20 رافیل طیاروں کے ساتھ 6 مئی کو پاکستان کی سرحد پر آ گیا‘ پاکستان یہی چاہتا تھا‘ پاک ائیرفورس نے تھکا دینے والی نفسیاتی جنگ کے ذریعے انڈیا کو سکواڈرن 101 سرحد پر لانے پر مجبور کر دیا تھا یوں چھ اور سات مئی کی درمیانی رات بھارت 72 جہاز فضا میں لے آیا‘ یہ آٹھ‘ آٹھ طیاروں کی نو فارمیشنز تھیں‘ ہر فارمیشن میں چار ایس یو 30‘ دو میراج 2000 اور عین درمیان میں دو رافیل طیارے تھے گویا چھ جہاز دو رافیل طیاروں کی حفاظت کر رہے تھے‘
ان طیاروں نے رات ساڑھے بارہ بجے حملہ شروع کر دیا‘ پاکستان کے 42 طیارے ہوا میں تھے‘ حملے کی اطلاع ملتے ہی ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر نے اپنے پائلٹس کو دو بار حکم دیا ’’کل دھم‘‘ جنگ میں ہمیشہ دو فورسز ہوتی ہیں‘ حملہ آور اور دفاعی‘ پہلی فورس یعنی حملہ آور اپنے وقت کا فیصلہ خود کرتی ہے جب کہ دفاعی فورس کو 24 گھنٹے ایکٹو رہنا پڑتا ہے تاہم اسے دفاع سے حملہ آور بننے کے لیے ذرا سا وقت چاہیے ہوتا ہے لیکن آپ پاکستانی پائلٹس کا کمال دیکھیے‘ انہیں ڈیفنس سے افینس موڈ میں آتے چند منٹ لگے‘ پاکستان نے پہلے بھارتی ریڈار سے طیاروں کا رابطہ ختم کیا اور پھر ان کا سیٹلائٹ سے رابطہ توڑ دیا‘ آخر میں طیاروں کا طیاروں سے رابطہ رہ گیا‘ پاکستان نے یہ جان بوجھ کر ختم نہیں کیا تاکہ یہ اعتماد سے آگے بڑھتے رہیں‘ پاکستانی طیارے نچلی پرواز کرتے ہوئے ان کے قریب پہنچے اور پاکستانی پائلٹس نے میزائلوں کا ریڈار سسٹم ایکٹو کیے بغیر رافیل طیاروں کا نشانہ لے لیا‘ میزائلوں کے ریڈار رافیل سے تین سیکنڈ کے فاصلے پر پہنچ کر آن ہوئے اور پائلٹس کے سنبھلنے سے پہلے بھارت کے چار رافیل‘ ایک ایس یو 30‘ ایک میراج 2000 اور ایک مگ 29 گر چکا تھا‘ اس حملے میں اسرائیل کا جہاز نما ڈرون ہیرون ایم کے 2 بھی تباہ ہو گیا‘ یہ ڈرون ٹائروں کے ساتھ اڑتا ہے اور بم گرا کر طیارے کی طرح واپس آ جاتا ہے‘ پاکستانی حملہ کوئوں کے غول میں بارہ بور بندوق کے فائر کی طرح تھا جس طرح فائر کے بعد کوے غائب ہو جاتے ہیں بالکل اسی طرح چند منٹ بعد بھارت کے تمام طیارے گرائونڈ ہو چکے تھے اور فضا میں دور دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا تھا‘ اس حملے میں رافیل ٹیل نمبر بی ایس زیرو زیرو ایک‘ بی ایس زیرو 21‘ بی ایس زیرو 22 اور بی ایس زیرو 27 تباہ ہوئے جس کے بعد رافیل اور میراج بنانے والے سو سالہ کمپنی ڈی سالٹ (DASSAULT) کے شیئرز گر گئے جب کہ جے ٹین طیارے کے شیئرز میں اضافہ ہو گیا‘ پاکستانی ائیرفورس نے انڈیا کو نفسیاتی طور پر تباہ کر دیا اور دس مئی تک اس کا کوئی جنگی طیارہ فضا میں نہیں اڑا‘ ان کے پائلٹس کا اعتماد ختم ہو گیا تھا‘ ان کے دماغ میں خوف بیٹھ گیا تھا ہم اگر اڑے تو پاکستان ہماری کمیونی کیشن جام کر کے ہمیں شوٹ کر دے گا۔
پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا چناں چہ اس نے ہمیں مزید حملوں سے روکنے پر کمر کس لی لیکن پاکستان نے صاف اعلان کر دیا‘ بھارت نے ہمارے شہروں پر حملہ کیا جس میں 31لوگ شہید ہوئے‘ ہم اس کا ہر صورت بدلہ لیں گے‘ بھارتی ائیرفورس بری طرح ناکام ہو چکی تھی چناں چہ بھارت نے ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے 8 اور 9 مئی کو پاکستان پر اسرائیلی ڈرونز اور براہموس میزائلوں سے حملہ کر دیا‘ نور خان ائیربیس پر دو میزائل داغے گئے‘ شور کوٹ اورمرید بیس پر بھی براہموس داغے گئے جن کے بعد پاکستان نے ہر صورت بدلہ لینا تھا اور پھر 10مئی کی صبح فجر کی نماز کے بعد پانچ بجے پاکستان نے حملہ شروع کر دیا‘ یہ ائیرفورس اور پاک فوج کا مشترکہ حملہ تھا اور اس حملے میں پاکستان نے بھارت کا ایس 400 اڑا دیا‘ یہ رافیل سے بھی بڑی شکست تھی (باقی اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے)۔