سلام آباد(نیوزڈیسک)این اے 122،تحریک انصاف کولینے کے دینے پڑگئے .این اے 122کے ضمنی انتخاب میں ووٹ دوسرےحلقوں میں منتقل ہونے کےالزامات تحریک انصاف کی جانب سے تواتر کے ساتھ عائد کیے جارہے تھے لیکن اب پی ٹی آئی کی طرف سے ثبوت کے طور پر جاری کیے جانیوالے اعدادوشمار جعلی ثابت ہوئے، ادھرتحریک انصاف کے رہنما چوہدری سرور کاکہنا ہےکہ ان کے پاس این اے 122میں ضمنی انتخاب سے قبل ووٹ دوسرے حلقوں میں منتقل کیے جانے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں جنہیں کل جماعتی کانفرنس اور پھر چیف الیکشن کمشنر کے سامنے پیش کیا جائیگا۔ تحریک انصاف زیادہ سے زیادہ دھاندلی کے الزامات عائد کرنے میں لگی ہوئی ہے اور اب اسے اپنا پراپیگنڈا ثابت کرنے کیلئے این اے 122میں ووٹوں کی منتقلی کا ڈیٹا کسی نیوز چینل کو فراہم کرنے پر مجرمانہ اور جعلسازی کے الزامات کا سامنا ہے، روزنامہ جنگ کے صحافی احمد نورانی کے مطابق کیونکہ سرکاری اعدادوشمار کے موازنے کے بعد وہ ڈیٹا مسخ شدہ اور جعلی ثابت ہوا ۔ اس کی جانب سے مستقل طور پر یہ دعویٰ کیا جارہا ہےکہ 11اکتوبر2015 کو این اے 122 میں اس کی شکست کی وجہ پولنگ کے روز سے پہلے اس کے کئی ووٹرز کے حلقے تبدیل کردیئے گئے، لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف ایسے ووٹرز کیتفصیلات الیکشن کمیشن یا آزاد میڈیا کو فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی کے حالیہ الزامات کی تحقیقات کرنے والے افسروں کاکہنا ہےکہ تحریک انصاف نے اپنے پراپیگنڈے کیلئے میڈیا کے کچھ عناصر کو استعمال کیا تاکہ وہ اپنے کارکنوں اور عوام کو گمراہ کرسکے ، اس نے این اے 122کے ایسے افراد کے نام اور پتے دیئے جن کے ووٹ این اے 122سے منتقل کیے گئے تھے ۔ اعلیٰ حکام نے دی نیوز کو اپنے سسٹم میں دکھاکر تصدیق کی کہ تحریک انصاف کی جانب سے جن ووٹروں کے نام اور پتےدو میڈیا ہاؤسز میں یہ ثابت کرنے کیلئے جاری گئےکہ ان کے ووٹوں کو دوسرے حلقوں میں منتقل کیا گیا ، وہ اعدادوشمار بالکل جعلی اور واضح طور پر مجرمانہ فعل اور عمومی طور پر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے۔ تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق سے اس ضمن میںان کا موقف جاننے کیلئے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن انہو ں نے کالز اٹھائی اور نہ ہی ان ٹیکسٹ پیغامات کا جواب دیا ، حالانکہ ان کا فون کھلا ہوا تھا اور وہ دوسروں کی کالز کا جواب بھی دے رہے تھے۔ ماہرین اس بات پر حیران ہیںکہ کس طرح الیکشن کمیشن یا کوئی پارٹی یا ادارہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹرز کی جانب سے مستقبل میں اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں جان سکتے ہیں اور ان ووٹرز کو دوسرے حلقوں میں منتقل کرسکیں ، جیساکہ تحریک انصاف کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا، لیکن اب نیوز چینلز پر صرف ایسے 8 ووٹرز اور ان کے شناختی کارڈز نمبر جاری کیے گئے اور سرکاری اعدادوشمار(کمپیوٹرائزڈ ووٹرز فہرست اور نادرا ریکارڈ) سے موازنہ کرنے پریہ اعدادوشمار بھی جعلی ثابت ہوئے ۔ الیکشن کمیشن کے افسران ابھی یہ فیصلہ نہیں کرپائے ہیں کہ آیا تحریک انصاف یا اس کی قیادت کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائیگی یا نہیں اور اگر شروع کی گئی تو کون اس کی ابتدا ء کریگا اور کب کریگا۔ ماضی میں بغیر تصدیق کے دھاندلی کےالزامات عائد کرنے والی تحریک انصاف این اے 122کے ووٹرز کو پولنگ کے روز سے پہلے دوسرے حلقوں میں منتقل کرنے کے معاملے پر کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کرنے جارہی ہے ۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق کمپیوٹرائزڈ ووٹرز فہرستوں کے الیکشن کمیشن کے منصوبے کی دیکھ بھال نادرا کی جانب سے کی جاتی ہے ، اور تحریک انصاف کی طرف سے دی جانیوالی درج ذیل تفصیلات جعلی ہیں ، جس میں لوگوں نے نیو زچینلز پر آکرمذکورہ شناختی کارڈز کے حامل ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ کیس نمبر1، شناختی کارڈ نمبر 35202-3339244-3 مرزا رشید برلاس ولد مرزا محمد امین بیگ برلاس کا اندراج2013کے انتخابات میں حلقہ این اے 128لاہور میں ہوا تھا، بلاک کوڈ( 185060102)،اور یہاں تک کہ بلدیاتی انتخابات کیلئے حتمی ووٹرز رفہرستوں کے مطابق ان کا ووٹ اب بھی حلقہ این اے 128لاہور میں موجود ہے۔ مذکورہ ووٹر کبھی این اے 122کا ووٹر رہا اور نہ ہی اس نے اپنا ووٹ کسی دوسرے حلقے میں منتقل کرنےکی کبھی درخواست کی ۔ اس لیے تحریک انصاف کی جانب سے فراہم کردہ اسکی تفصیلات مسخ شدہ ہیں اور یہ سیدھا جعلسازی کا کیس ہے۔ دلچسپ بات یہ ہےکہ مذکورہ ووٹر نے اپنے ووٹ کی تفصیلات کی تصدیق کرنے کیلئے 2013میں تین مرتبہ الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس8300 کا استعمال کیا۔ 27اپریل 2013کوشام 6 بج کر 5 منٹ پر اور 23مئی 2013کو شام 4 بج کر 18منٹ پر الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس کا استعمال کیا تھا۔ اس ووٹر کی جانب سے جب بھی الیکشن کمیشن سے معلومات طلب کی گئی ، تو اسے بتایاگیاکہ اس کے ووٹ کا اندراج حلقہ این اے 128میں ہے۔ کیس نمبر2، شناختی کارڈ نمبر 35202-0935670-6، کوثر پروین ،شوہر کا نام امتیاز حسین ، (لاہور بلاک کوڈ-186080515)2013کے انتخابات میں اس کے ووٹ کا اندراج حلقہ این اے 129میں ہوا تھا، اور بلدیاتی انتخابات کیلئے تیار کی جانیوالی ووٹرز فہرستوں کے مطابق اب بھی اس کا ووٹ اسی حلقے میں ہے ۔ اس ووٹر نے کبھی بھی اپنے ووٹ کی تفصیلات جاننے کیلئے الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس سے استفادہ نہیںکیا ۔ اس ووٹر کے حوالےسے بھی تحریک انصاف نے میڈیا کے ساتھ دھوکا کیا ، کیونکہ وہ کبھی این اے 122کی ووٹر نہیں رہیں اس لیے این اے 122سے ان کے ووٹ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیس نمبر 3، شناختی کارڈ نمبر 35202-0801941-8خورشید بی بی ، شوہر کا نام غلام سرور،(لاہور بلاک کوڈ 185010127)2013کے انتخابات میں ان کے ووٹ کا اندراج این اے 128لاہور میں ہوا تھا ، اور بلدیاتی انتخابات کیلئے جن ووٹر فہرستوں کو حتمی شکل دی گئی ہے اس میں بھی ان کا ووٹ اسی حلقے میں ہے۔ اس ووٹر نے کبھی بھی اپنے ووٹ کی تفصیلات جاننے کیلئے الیکشن کمیشن کی ایس ایم ایس سروس سے استفادہ نہیںکیا ۔ اس ووٹر کے حوالےسے بھی تحریک انصاف نے میڈیا کے ساتھ دھوکا کیا ، کیونکہ وہ کبھی این اے 122کی ووٹر نہیں رہیں اس لیے این اے 122سے ان کے ووٹ کی منتقلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کیس نمبر 4، شناختی کارڈ نمبر 35202-3810367، شوکت علی ولد عبدالعزیز(لاہور بلاک کوڈ-185020503)، 2013کے انتخابات کے موقع پران کے ووٹ کا اندراج حلقہ این اے 128میں ہوا تھا ، اور بلدیاتی انتخابات کیلئے بھی مرتب کردہ ووٹر فہرستوں میں ان کا ووٹ اسی حلقے میں ہے ۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں