جمعرات‬‮ ، 25 ستمبر‬‮ 2025 

1984ء

datetime 25  ستمبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے ذراسا پیچھے سے شروع کرنا ہو گا‘ 1980ء کی دہائی میں عراق اسلامی دنیا کا طاقتور ترین ملک تھا‘ اس کے پاس فوج تھی‘ تیل کا پیسہ تھا اور دنیا اس کے ساتھ تھی‘ عراقی حکمران ہر لحاظ سے عراق کو ناقابل تسخیر بنانا چاہتے تھے اور یہ ایٹم بم کے بغیر ممکن نہیں تھا‘ فرانس اس زمانے میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو لیڈ کر رہا تھا‘عراق نے 1976ء میں فرانس سے ایٹمی ریکٹر خریدا اور بغداد سے 17 کلومیٹر کے فاصلے پر عرب دنیا کے پہلے ایٹمی پلانٹ کی بنیاد رکھ دی اور ایٹمی طاقت بننے کے لیے دن رات ایک کر دیے‘عراقی نیوکلیئر سائیٹ فرنچ زبان میں اوسی راک (Osirak) اور عربی میں تموز کہلاتی تھی‘ تموز بابلی دور میں مہینے کا نام تھا‘ صدام حسین کی سیاسی پارٹی تموز کے مہینے میں بنی تھی لہٰذا صدام حسین نے نیوکلیئر سائیٹ کا نام تموز رکھ دیا‘ عراق کے ایٹمی پروگرام سے دو ملکوں کو خطرہ تھا‘ ایران اور اسرائیل‘ ایران نے 1980ء میں تموز پر حملہ کر کے عمارت کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچایا لیکن اس کے پاس بھاری بم‘ میزائل اور جہاز نہیں تھے لہٰذا وہ پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ نہ کر سکا‘ ایران کا یہ آپریشن شمشیر سوزان کہلاتا ہے‘ اس کے بعد اسرائیل کی باری تھی‘ اسرائیل نے 7 جون 1981ء میں تموز ایٹمی پلانٹ پر حملہ کیا اور اسے مکمل طور پر ختم کر دیا‘ یہ حملہ فضائیہ کی تاریخ کا ناقابل یقین واقعہ تھا‘ میں بات آگے بڑھانے سے قبل آپ کو اس حملے کی تفصیل بتائوں گا‘ کیوں؟ کیوں کہ ہماری کہانی میں آگے چل کر اس کا بار بار ذکر آئے گا اور اس کا موجودہ حالات کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے۔

اسرائیل نے 1979ء میں عراق کا ایٹمی ریکٹر تباہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ اس وقت اسرائیل میں میناگھم بجن (Menachem Begin) وزیراعظم تھا‘ اس نے اسرائیلی ائیرفورس کے 140 سکواڈرن کو یہ ذمہ داری سونپ دی‘ یہ سکواڈرن عرف عام میں گولڈن ایگل کہلاتا تھا‘ اس زمانے میں ایف 16 سب سے اچھا جہاز تھا لیکن یہ اسرائیل سے عراق اور وہاں سے واپس نہیں آ سکتا‘ اسرائیلی انجینئرز نے سب سے پہلے اس میں الٹریشن کی ‘اس کے ساتھ تین اضافی فیول ٹینک لگائے‘ پھر جہاز کے ساتھ دو دو ہزار پائونڈز (1920 کلوگرام) وزنی دو ایم کے 84 بم لگائے اور پھر یہ ان جہازوں کو اڑاتے رہے‘ اسرائیل نے ایسے 8 جہاز تیار کیے تھے‘ اس پراجیکٹ کو آپریشن اوپیرا کا نام دیا گیا‘ اس کے لیے ایسے 20 پائلٹس منتخب کیے گئے جو مرنے کے لیے تیار تھے‘ انہیں خصوصی ٹریننگ سے گزارکر بغداد سے ملتی جلتی زمین پر مسلسل دو سال پریکٹس کرائی گئی‘ اسرائیل نے اپنے صحرا میں تموز پلانٹ جیسی بلڈنگ بنائی‘ پائلٹ روز 8 خصوصی ایف 16 طیاروں پر بغداد جتنا فاصلہ طے کرتے تھے‘ فیول کے تینوں اضافی ٹینک ختم کرتے تھے اور پھر ایم کے 84 جتنے وزنی بم عمارت پر گراتے تھے اور پھر 1139کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے واپس بیس پہنچتے تھے‘ یہ پریکٹس دو سال مسلسل جاری رہی‘ اس دوران کسی پائلٹ اور معاون نے کوئی چھٹی نہیں کی‘ انہیں بتایا گیا تھا تمہیں کسی بھی دن اصل مشن پر روانہ کر دیا جائے گا‘ وہ دن کون سا ہو گا کوئی نہیں جانتا لہٰذا تمہیں ہروقت تیار رہنا ہوگا‘ اسرائیلی پائلٹس ان دو برسوں میں ریڈار سے بچنے کے لیے زمین سے صرف 30 میٹر (98 فٹ) کی بلندی پر اڑتے تھے‘ اس دوران اسرائیل کے ماہرین اردن‘ سعودی عرب اور عراق کی فضائی سیکورٹی کا جائزہ لیتے رہے‘

موساد نے عراقی پلانٹ کے ایک ایک ملازم کا ڈیٹا اکٹھا کیا‘ اس کے رجحانات کا جائزہ لیا‘ یہ اس کی فیملی اور ایڈریس تک پہنچے‘ ان کے کھانے اور واش روم تک کی عادات کا ڈیٹا اکٹھا کیاگیا‘ بہرحال قصہ مختصر 7 جون 1981ء اتوار کے دن تین بجے اسرائیلی پائلٹوں کو بتایا گیا ہم آج اصل سائیٹ پر حملہ کریں گے‘ انہیں تیاری کے لیے صرف آدھ گھنٹہ دیا گیا تھا‘ یہ تیار ہوئے اور 3 بج کر 55 منٹ پر ایٹزیان ائیربیس سے اڑ گئے‘ ایف 16 طیاروں کے ساتھ چھ ایف 15 اے ایس طیارے تھے‘ یہ8 طیاروں کی حفاظت پر معمور تھے‘ یہ سب سے پہلے اردن میں داخل ہوئے اور اردن کی فضائی حدود میں خود کو سعودی سکواڈرن ظاہر کیا‘ ان کے پاس سعودی عرب کے تمام کوڈز اور سگنلز فارمیشن تھی‘ یہ وہاں سے سعودی حدود میں داخل ہوئے اور خود کو اردنی ائیرفورس ظاہر کیا‘ ان کی کمیونی کیشن اتنی زبردست تھی کہ اردن اور سعودی عرب کو ذرا برابر شک نہیں ہوا‘ اردن کے شاہ حسین اس وقت اسرائیل کی سرحد پر واقع عقبہ پورٹ پر اپنے بحری جہاز میں چھٹیاں منا رہے تھے‘ اسرائیلی طیارے ان کے اوپر سے گزرے تو یہ فوراً پہچان گئے‘ یہ طیارے اسرائیلی ہیں اور یہ عراق پر حملہ آور ہیں‘ انہوں نے اپنے سٹاف کو فوراً عراقی حکومت کو مطلع کرنے کا حکم دیا لیکن اسرائیل نے تمام ٹیلی فون لائنیں جام کر دی تھیں لہٰذا شاہ حسین کا پیغام عراق تک نہ پہنچ سکا بہرحال اسرائیلی طیارے زمین سے 30 میٹر کی بلندی پر پرواز کرتے ہوئے بغداد پہنچ گئے‘ وہ مغرب کا وقت تھا اور اس وقت نیوکلیئر پلانٹ پر سیکورٹی گارڈز کی ڈیوٹی تبدیل ہوتی تھی چناں چہ پکٹس اور چیک پوسٹوں پر بیٹھے گارڈز مشین گنیں اور ریڈار بند کر کے نیچے آئے تھے‘ یہ لوگ جب سیکورٹی چارج تبدیل کر رہے تھے تو اسرائیلی طیارے اچانک 30 میٹر سے 2100میٹر تک اوپر اٹھے اور پھر تموز کے پلانٹ پر بم گراتے چلے گئے‘ تمام پائلٹس کے پاس پانچ پانچ سیکنڈز تھے‘ انہوں نے پانچ سیکنڈ میں دو بم بھی گرانے تھے اور پیچھے آنے والے جہاز کو راستہ بھی دینا تھا‘ یہ کل دو منٹ کا آپریشن تھا اور ٹھیک دو منٹ بعد تموز ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا اور پورے بغداد کو سیاہ کالے بادل اپنے حصار میں لے چکے تھے‘ اسرائیلی جہازوں نے اگلے تین سیکنڈز میں اپنے اضافی فیول ٹینکس نیچے گرائے اور دس منٹ میں عراق کی حدود سے نکل گئے‘ یہ سعودی عرب اور اردن کو اطلاع ہونے سے قبل اسرائیل میں واپس پہنچ چکے تھے۔

یہ فضائی تاریخ کا خوف ناک اور حیران کن آپریشن تھا‘ اس نے عربوں کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ کو بھی پریشان کردیا‘ امریکا کا خیال تھا دنیا کی کوئی ائیرفورس تین ملکوں کا ریڈار سسٹم جام نہیں کر سکتی اور ایف سولہ کو تین اضافی فیول ٹینک اور دو ہزار کلو وزنی بموں کے ساتھ نہیں اڑا سکتی لیکن اسرائیل نے یہ کر دکھایا‘ اس حملے نے عراق کے ساتھ ساتھ پوری عرب دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ اردن‘ سعودی عرب اور عراق تینوں اس وقت امریکا کے اتحادی تھے اور امریکا اپنے تینوں اتحادیوں کی فضا نہیں بچاسکا تھا‘ امریکا اور فرانس عراق پر حملہ روکنا تو دور اسے بروقت اطلاع تک نہیں دے سکے تھے‘ اس صورت حال نے سب سے زیادہ سعودی عرب کو پریشان کیا‘ کیوں؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ سعودی عرب اپنی سیکورٹی کے لیے امریکا کو سو بلین ڈالر سے زیادہ ادا کر چکا تھا لیکن امریکی مشینیں سعودی فضا میں اڑتے اپنے ہی تیار شدہ طیاروں ایف سولہ کا اندازہ نہیں کر سکیں‘ دوسرا سعودی شاہی خاندان اپنی سلامتی کے بارے میں بہت حساس ہے چناں چہ سعودی عرب نے پہلی بار اسلامی دنیا سے اپنا محافظ تلاش کرنا شروع کیا اور اس کی نظریں پاکستان پر آ کر ٹھہر گئیں‘ کیوں؟ اس کی بھی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ پاک فوج تھی‘ پاکستان نے کسی بھی حالات میں فوجی تیاری پر کمپرومائز نہیں کیا تھا‘

پاکستان میں ڈکٹیٹر بھی آتے رہے‘ مارشل لاء بھی لگتے رہے اور ملک بھی ٹوٹ گیا لیکن قوم نے اس کے باوجود فوج پر سمجھوتہ نہیں کیا‘ دوسرا پاکستان اس زمانے میں دنیا کا واحد ملک تھا جس نے سوویت یونین جیسی طاقت کے ساتھ متھا لگا لیا تھا‘ افغان وار تازہ تازہ شروع ہوئی تھی اور یہ حقیقت تھی یہ جنگ امریکا اور اتحادیوں کی رضامندی کے بغیر جنرل ضیاء الحق نے اپنے بل بوتے پر شروع کر دی تھی اور پاک فوج نے مجاہدین کی مدد سے روس کوروک بھی لیا تھا‘ عرب صحرائی لوگ ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ صحرائی لوگوں کو دور تک دیکھنے کی صلاحیت سے نوازتا ہے چناں چہ عربوں نے فوراً اندازہ کر لیا پاکستانی نڈر لوگ ہیں‘ ان کی فوج مرنے سے نہیں ڈرتی‘یہ اپنے ہتھیار بھی خود بنا رہے ہیں‘ یہ ایٹم بم کے بھی قریب ہیں اور پاکستان میں فوج کبھی کم زور نہیں ہو گی چناں چہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ پر گفت و شنید شروع کر دی‘ یہ سلسلہ تین سال چلتا رہا یہاں تک کہ 1984ء میں سعوی عرب کے ساتھ پاکستان کا پہلا دفاعی معاہدہ ہو گیا‘ عرب اسرائیلی حملے کے بعد یہ جان چکے تھے اگلی تمام لڑائیاں فضائی ہوں گی چناں چہ انہوں نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا آپ ہماری بری فوج کے ساتھ ساتھ ائیرفورس کو بھی ٹرینڈ کریں گے یوں 1984ء میں پاک فوج کے اڑھائی ہزار جوان اور آفیسرز سعودی عرب گئے اور انہوں نے سعودی افسروں اور جوانوں کی ٹریننگ شروع کر دی‘ یہ سلسلہ 2025ء تک جاری رہا‘ سعودی عرب نے ان 41 برسوں میں اس معاہدے میں ایک کاما اور فل سٹاپ بھی تبدیل نہیں کیا‘ یہ معاہدہ ٹائپ ہوا تھا‘ اس کے بعد کمپیوٹر آ گیا لیکن معاہدہ آج تک ٹائپ شدہ حالت میں ہے اور جوں کا توں ہے‘ اسے کسی نے کمپیوٹرائزڈ کرنے کی کوشش بھی نہیں کی لیکن پھر 2025ء آ گیا اور عرب ایک بار پھر 1984ء جیسی صورت حال کا شکار ہو گئے لیکن اس سے قبل اپریل 2025ء کا ٹیسٹ آیا اور پاکستان نے افغان وار کی طرح دنیا کو ایک بار پھر حیران کر دیا‘کیسے؟ یہ آپ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے گا۔

 

tour

موضوعات:



کالم



1984ء


یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…