اسلام آبا (نیو ز ڈ یسک )ماہرینِ فلکیات کا کہنا ہے کہ مریخ سے حاصل کردہ ایک چٹان پر موجود تیندوے جیسے نشانات ممکنہ طور پر اس سیارے پر ماضی میں موجود زندگی کی علامت ہو سکتے ہیں۔
یہ نمونے ناسا کے Perseverance روور نے جولائی 2024 میں جمع کیے تھے، جن کے بارے میں تازہ تحقیق معروف سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
ناسا کے قائم مقام ایڈمنسٹریٹر سین ڈفی نے بتایا کہ ایک سال تک کی جانے والی جانچ پڑتال کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ اب تک مریخ پر زندگی کے سب سے واضح ممکنہ آثار ہیں۔
یہ نمونے مریخ کی Neretva Vallis ریور ویلی سے لیے گئے تھے، جس علاقے کے بارے میں ماہرین کا ماننا ہے کہ اربوں سال پہلے یہاں پانی بہا کرتا تھا۔ ان چٹانوں کو سائنسدانوں نے Sapphire Canyon کا نام دیا ہے۔
ناسا کا روور 2021 میں مریخ پر ایک قدیم جھیل کے مقام پر اترا تھا تاکہ وہاں سے چٹانیں اکٹھی کر کے تحقیق کی جا سکے۔ اگرچہ یہ نمونے فی الحال زمین سے لاکھوں میل دور ہیں لیکن سائنسدان پرامید ہیں کہ ان سے یہ طے کیا جا سکے گا کہ مریخ پر کبھی خردبینی زندگی موجود تھی یا نہیں۔
پراجیکٹ سے وابستہ سائنسدان کیٹی اسٹیک مورگن کا کہنا ہے کہ جراثیمی زندگی کی موجودگی کے شواہد کی تصدیق کے لیے برسوں محنت کی گئی ہے اور اب ہم اس نتیجے کو دنیا کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دریافت کے بعد سے روور اس وادی کا سروے کر رہا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ ان چٹانوں پر بننے والے نشانات کی اصل وجہ کیا ہے۔
تحقیق کے مطابق دو امکانات موجود ہیں:
-
یہ نشانات جغرافیائی عوامل کی وجہ سے وجود میں آئے ہوں۔
-
یا یہ جراثیمی زندگی کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہوں۔
ابھی تک پہلی صورت کو ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح شواہد نہیں ملے، اسی لیے محققین نے اس امکان کو رد نہیں کیا کہ یہ قدیم حیاتیاتی سرگرمی کا نشان ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق مستقبل میں جب یہ نمونے زمین پر لائے جائیں گے تو لیبارٹری میں مزید تفصیلی جانچ کے بعد حتمی طور پر یہ طے کیا جا سکے گا کہ آیا یہ واقعی زندگی کے آثار ہیں یا پھر محض قدرتی جغرافیائی عمل کا نتیجہ۔















































