اسلام آباد(نیوز ڈیسک )پیسہ‘ اور ’خوشی‘ کے علاوہ شاید دنیا میں چند ہی دوسرے مقبول موضوع ہوں گے جن پر تمام لوگ بات کرتے ہوں گے۔
اگرچہ اینگس ڈیٹن کو جس کام پر نوبل انعام کا حقدار قرار دیا گیا وہ ان کا وہ تحقیقی کام تھا جو انھوں نے خرچ، غربت اور بہبود کے موضوعات پر کیا، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عوامی سطح پر ان کی پزیرائی اسی وقت ہوئی جب انھوں نے ’خوشی‘ کے موضوع پر لکھا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اینگس ڈیٹن کا کہنا تھا کہ ’جب میں کسی سپ±ر مارکیٹ میں لوگوں کو اپنے بارے میں بات کرتے سنتا ہوں تو یہ وہ واحد مضمون ہے جس کا ذکر وہ لوگ کر رہے ہوتے ہیں۔‘
ڈیٹن نے اپنے مضمون میں جو نتائج نکالے ہیں ان سے شاید ان لوگوں کو حیرت ہو جو یہ سمجھتے ہیں کہ خوشی خریدی نہیں جا سکتی۔
خوشی کہتے کسے ہیں؟
دنیا بھر کے فلسفی صدیوں سے اس بات پر جھگڑتے رہے ہیں کہ آخر خوشی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوشی کی پیمائش کرنا ایک پیچیدہ کام ہے۔
بی بی سی کے پروگرام ’مور اور لیس‘ (زیادہ یا کم) میں بات کرتے ہوئے اینگس ڈیٹن کا کہنا تھا کہ خوشی کو ناپنے کے لیے وہ دو محتلف قسم کے سوالوں پر انحصار کرتے ہیں۔
ایک قسم کے سوال تو وہ ہوتے ہیں جن کا تعلق روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے ہوتا ہے اور اس کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہوتا ہے کہ لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کی زندگی جا کہاں رہی ہے۔
ہو سکتا ہے اینگس ڈیٹن اپنے مخاطب سے یہ پوچھیں کہ ’یہ آپ کے سامنے ایک سیڑھی رکھی ہے۔ اگر آپ اس کے پہلے پائدان پر کھڑے ہیں تو سمجھیں آپ صفر پر کھڑے ہیں اور آپ کی زندگی بالکل فضول ہے۔ اور اگر آپ دسویں پائدان پر ہیں تو آپ کی زندگی بہترین ہے۔ آپ خود کو اس سیڑھی کے کس پائدان پر تصور کرتے ہیں؟‘
پیسہ خوشی خرید سکتا ہے
پروفیسر ڈیٹن کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے کتنے مطمئن ہیں تو ان کا جواب براہ راست ان کی آمدنی سے متعلق ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈیٹن کے بقول خوشی سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں کہ آپ کی آمدنی کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بِل گیٹس یہ کہتے کہ وہ ہر ایسے شخص سے زیادہ خوش ہیں جس کی آمدن ا±ن سے کم ہے۔
’لیکن یہ کوئی سیدھا سیدھا فارمولا نہیں ہے، بلکہ اس میں آپ ریاضی کے ایسے جدول کا استعمال کرتے ہیں جس کی بنیاد لاگرتھم ہوتی ہے۔ اس فارمولے کے تحت آپ کو سیڑھی کے اگلے پائدان پر جانے کے لیے مزید پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ تو کبھی نہیں رکتا۔ اور یہ بات صرف کسی ایک شخص پر لاگو نہیں ہوتی، بلکہ آپ اس کا اطلاق ملکوں پر بھی کر سکتے ہیں۔‘
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ اپنی خواہشات کی تکمیل کی بات کریں تو آپ پیسے سے خوشی خرید سکتے ہیں۔
روز مرہ کا مزہ
لیکن روز مرہ کی خوشی کیا ہوتی ہے؟ اگر آپ کسی سے پوچھتے ہیں کہ ’آج آپ کا دن کیسا تھا؟
پروفیسر ڈیٹن کہتے ہیں کہ اس معاملے میں بھی پیسہ آپ کی خوشی پر اثر انداز ہوتا ہے، تاہم صرف اسی وقت جب آپ کی کم از کم سالانہ آمدن 75 ہزار ڈالر ہو۔
پرفیسر ڈیٹن کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو 75 ہزار ڈالر سے کم کماتے ہیں، امکان یہی ہے کہ وہ اپنی آمدن کے بارے میں پریشان رہتے ہوں گے جس کی وجہ سے وہ زیادہ خوش نہیں رہتے۔
’لیکن جب ہر وقت کی نکتہ چینی کا خوف دور ہو جاتا ہے، تو ہرگھنٹہ آپ کی خوشی کا معیار اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پیسے کی قلت آپ کی روز مرہ کی زندگی کو خاصی اذیت ناک بنا دیتی ہے۔ لیکن 75 ہزار ڈالر سے زیادہ کی آمدن سے آپ کی خوشی پر کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔
تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ’کیا آپ پیسے سے خوشی خرید سکتے ہیں‘ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنے پیسے کی بات کر رہے ہیں اور خوشی سے آپ کی مراد ہے کیا۔
پیسہ آپ کو خوشی دے سکتا ہے؟
20
اکتوبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں