واشنگٹن (این این آئی)امریکی جریدے بلوم برگ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے حالیہ دورہ امریکا کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات میں نمایاں اور حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ آرمی چیف کے دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی صدر کی جانب سے ان کا وائٹ ہاؤس میں غیر معمولی خیر مقدم کیا گیا، جسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مثبت تبدیلی کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش بھی کی جبکہ اپریل میں پاکستان نے ٹرمپ خاندان کی کمپنی ورلڈ لبرٹی فنانشل کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔بلوم برگ کے مطابق جنرل عاصم منیر کے دورے کے بعد امریکا اور پاکستان کے درمیان تجارتی مذاکرات میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان طویل عرصے بعد بامعنی مکالمہ بحال ہوا ہے جس میں تجارتی معاہدے، ٹیرف میں نرمی اور درآمدات و برآمدات میں توازن جیسے امور زیر بحث آئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ان دنوں امریکا میں تجارتی معاہدے کے سلسلے میں بھرپور سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگست کی ڈیڈلائن سے قبل امریکا کے تجارتی مطالبات پر مثبت پیش رفت ہو۔ اس سے قبل امریکا کی جانب سے پاکستانی وفد کو ایک مفصل فہرست فراہم کی گئی تھی جس میں پاکستان سے ٹیرف اور نانـٹیرف رکاوٹوں میں کمی سمیت مختلف شرائط پوری کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
پاکستانی وزارت خزانہ کے مطابق مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے اور پاکستان چاہتا ہے کہ مخصوص مصنوعات پر عائد کیے گئے ٹیرف میں چھوٹ حاصل کی جائے۔ اگرچہ حکومت نے جولائی کے اوائل میں معاہدہ مکمل کرنے کی توقع کی تھی، تاہم مذاکرات کی رفتار توقع کے برعکس سست رہی ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تجارتی خسارہ تقریباً 3 ارب ڈالر ہے اور پاکستان اس خسارے کو کم کرنے کے لیے 29 فیصد کے ٹیرف سے چھوٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ امریکا اس وقت پاکستان کی برآمدات کے لیے سب سے بڑی منڈی ہے جبکہ پاکستان جنوبی ایشیا میں چین کے بعد امریکی کپاس کا دوسرا سب سے بڑا خریدار ہے۔ پاکستان نے امریکا سے سویابین اور کپاس کی درآمدات بڑھانے کی پیشکش بھی کی ہے۔بلوم برگ کے مطابق آرمی چیف کے دورے سے پاکستان اور امریکا کے باہمی اقتصادی تعلقات میں جو حرکت پیدا ہوئی ہے، وہ آئندہ مہینوں میں کسی باضابطہ تجارتی معاہدے کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔