تہران (این این آئی )ایران کے افزودہ یورینیم کی گمشدگی اب بھی امریکا اور اسرائیل دونوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ اس جانب کئی خفیہ رپورٹوں نے اشارہ کیا ہے، جن میں سیٹلائٹ تصاویر بھی شامل ہیں جنھوں نے امریکی حملے سے ایک دن قبل فردو تنصیب کے قریب غیر معمولی سرگرمیوں کا انکشاف کیا، جہاں متعدد ٹرکوں کی غیر معمولی نقل و حرکت دیکھی گئی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق امریکہ نے بی-2 اسٹیلتھ بم بار طیاروں کے ذریعے اپنے روایتی ہتھیاروں میں سب سے بڑے بموں کو ایرانی جوہری تنصیبات پر گرایا، تاکہ ایسے مقامات کو تباہ کیا جا سکے جن میں پہاڑ کے نیچے واقع فردو کی یورینیم افزودگی کی تنصیب، نطنز کی افزودگی تنصیب اور اصفہان کا تحقیقی ری ایکٹر شامل تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول یہ حملہ ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ کر گیا۔تاہم، اس حملے سے قبل فردو کی افزودگی تنصیب کے باہر 16 ٹرک قطار میں کھڑے دیکھے گئے۔ برطانوی اخبار سے بات کرتے ہوئے ایرانی جوہری پروگرام کے ایک ماہر نے بتایا کہ اس سے قبل کہ امریکہ تنصیبات کو نشانہ بنا سکے ایرانی نظام نے افزودہ یورینیم کی بڑی مقدار کو ایک خفیہ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔برطانوی اخبار کے مطابق، افزودہ یورینیم کو چھپانے کی بہترین جگہ کوہ فاس ہے، جو فردو تنصیب سے تقریبا 145 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
یہ نطنز کے جوہری مقام کے بہت قریب اصفہان صوبے میں موجود ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ یہ نیا خفیہ مقام زیر زمین ایک گہری جوہری تنصیب ہے جس کی گہرائی زمین کی سطح سے تقریبا 100 میٹر نیچے ہے، جب کہ فردو تنصیب کی تخمینی گہرائی 60 سے 90 میٹر کے درمیان ہے۔ اس اعتبار سے یہ مقام فردو اور نطنز دونوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط تصور کیا جاتا ہے۔فردو کے برعکس، جس میں صرف ایک داخلی سرنگ ہے، کوہ فاس میں کم از کم چار داخلی راستے ہیں، جن میں دو پہاڑ کے مشرقی طرف اور دو مغربی طرف واقع ہیں۔ایران وہاں اس وقت ایک تنصیب تعمیر کر رہا ہے اور اس نے گزشتہ چار برسوں میں اس علاقے کو خاموشی سے وسعت دینے اور اس کے تحفظ کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ خفیہ طور پر توسیع پا چکا ہے، اور افزودگی کی تنصیب معلوم ہونے والی جگہ کے گرد نئے مضبوط حفاظتی انتظامات بنائے جا چکے ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق، پہاڑ کے نیچے واقع اس تنصیب میں پہلے ہی پیچیدہ سرنگوں کا نیٹ ورک تیار کیا جا چکا ہے، اور یہ جدید ترین سکیورٹی نظام سے لیس ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس منصوبے کی وسعت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران اس تنصیب کو صرف سینٹری فیوجز بنانے کے لیے نہیں بلکہ یورینیم کی افزودگی کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔