میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی بار مشاہد حسین سید کے ساتھ آیاتھا‘ میں اس وقت بھی اسے دیکھ کر مبہوت ہو گیا اور 27مئی 2025ء کو دوسری مرتبہ بھی یہ میرے دل اور دماغ میں بیٹھ گئی‘ سرسبز پہاڑوں پر تاحد نظر بھورے رنگ کی لکیر تھی اور اس پر ہر آدھ کلومیٹر بعد واچ ٹاورتھا‘ یہ ٹاورز دور سے سانپ کے پیٹرن محسوس ہوتے تھے‘ دیوار چین کتنی بڑی ہے آپ اس کا اندازہ زمین کے کل فاصلے سے لگا لیجیے‘ ہم اگر قطب شمالی سے قطب جنوبی کی طرف سفر کریں تو زمین کا کل قطر 20 ہزار کلومیٹر ہے لیکن چین کے قدیم بادشاہوں نے قبل مسیح میں 21 ہزار ایک سو 96کلومیٹر لمبی دیوار بنا دی گویا اگر اس دیوار کو شمال سے جنوب سیدھا بنایا جاتا تو یہ زمین کے کرے سے باہر نکل جاتی اور زمین کو مشرق اور مغرب دو حصوں میں تقسیم کر دیتی اور مشرق کے لوگ مغرب اور مغرب کے لوگ مشرق نہ جا سکتے‘
دیوار کا آغاز چن(Qin) سلطنت کے بادشاہ چین شی ہوانگ نے 210 قبل مسیح میں کیا اور یہ 1644ء تک بنتی رہی‘ آپ چینی کردار اور مستقل مزاجی دیکھیے‘یہ مسلسل 23سو سال بنتی رہی‘ اس دوران سینکڑوںبادشاہ آئے اور چلے گئے لیکن دیوار کا کام جاری رہا‘ آج بھی اس میں سے 8ہزار 8سو کلومیٹر دیوار موجود ہے‘ آپ اس سے اس کی مضبوطی کا اندازہ کر لیجیے‘ اس کی اونچائی مختلف مقامات پر مختلف ہے لیکن اوسطاً یہ 25فٹ اونچی ہے‘ سوال یہ ہے اتنا بڑا انفراسٹرکچر بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ جواب دل چسپ ہے‘ قبل مسیح میں چین سات ملکوں کی سرزمین تھی‘ اس کے دائیں بائیں گھاس کے وسیع میدان تھے اور ان میدانوں میں وحشی قبائل رہتے تھے‘ یہ سائبیریا اور موجودہ جاپان تک پھیلے ہوئے تھے‘ ان کے پاس لاکھوں کی تعداد میں گھوڑے ہوتے تھے‘ ان کی گرمیاں ٹھیک گزرجاتی تھیں لیکن جوں ہی سردیاں شروع ہوتی تھیں تو ان کی زندگی منجمد ہو کر رہ جاتی تھی‘
ان کے پاس خوراک ہوتی تھی اور نہ ہی چارہ لہٰذا وہ مجبوراً چین پر حملہ کر دیتے تھے‘ چینی فوجیں ان وحشیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں چناں چہ وہ خوراک کے گودام لوٹ لیتے تھے‘ عورتوں اور مردوں کو غلام بنا لیتے تھے اور جانور ہانک کر لے جاتے تھے‘ موت اور بربادی کا یہ کھیل ساری سردی جاری رہتا تھا جوں ہی برفیں پگھلتی تھیں تو وہ واپس لوٹ جاتے تھے‘ چین کے بچے کچھے باشندے شہر دوبارہ آباد کرتے تھے تو ان کے اگلے حملے کا وقت آ جاتا تھا‘ وہ وحشی لوگ بیک وقت سات ریاستوں پر حملے نہیں کرتے تھے‘ کیوں؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ چین بڑا خطہ تھا لہٰذا بیک وقت حملہ ممکن نہیں تھا‘ دوسرا اگر وہ پورے چین کو چھیڑ لیتے تو سات ریاستیں مل کر انہیں ختم کر دیتیں چناں چہ وہ لوگ ہر سال کسی ایک ریاست پر حملہ آور ہوتے تھے‘ ریاستوں کی آپس میں دشمنی تھی لہٰذا دوسری ریاستیں مظلوم ریاست کا ساتھ نہیں دیتی تھیں‘ وحشی اس تقسیم کا بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے‘ وہ ایک ریاست تباہ کرتے اور اگلے سال دوسری ریاست پر حملہ آور ہو جاتے یوں ساتویں سال دوبارہ پہلی ریاست کی باری آ جاتی‘ حملہ آور کیوں کہ خانہ بدوش تھے اوران کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں تھا لہٰذا ان پر حملہ کر کے انہیں ختم نہیں کیا جا سکتاتھا‘
چینیوں نے طویل ترین ذلالت اور مارا ماری کے بعد حملہ آوروں کے راستے میں دیوار بنانے کا فیصلہ کیا‘ مختلف ریاستوں نے اپنی اپنی حدود میں دیوار بنائی‘ یہ گھوڑوں کی چھلانگ سے اونچی تھی لہٰذا ان کا ملک حملہ آوروں سے بچ گیا۔
دیوار چین 7.8میٹر(25فٹ) بلند ہے‘ پتھر اس طرح جوڑ کر اوپر نیچے لگائے گئے ہیں کہ گھوڑا اور سوار اسے پھلانگ نہ سکے‘ دیوار کی دونوں جانب گھاٹیاں تھیں (آج بھی ہیں) ان کی وجہ سے کوئی باہر سے دیوار پر چڑھ سکتا تھا اور نہ دوسری طرف اتر سکتا تھا‘ ہر کلومیٹر بعد دروازے تھے لیکن وہ انتہائی مضبوط تھے اور ان کے پیچھے فوجیں تیار کھڑی رہتی تھیں‘ دروازے رات کے وقت بند کر دیے جاتے تھے‘
دیوار چین کی چوڑائی اوسطاً 13سے 16فٹ تھی‘ اس پر باقاعدہ پانچ گھڑ سوار سائیڈ بائی سائیڈ دوڑ سکتے تھے‘ آدھ کلومیٹر کے فاصلے پر برجیاں تھیں جن میں سپاہیوں کی رہائش ہوتی تھی‘ برجیوں کی چھتوں پر آگ جلانے کا بندوبست تھا‘ سپاہی ایک دوسرے کو آگ کے ذریعے پیغام دیتے تھے‘ ایک ٹاور آگ جلا کر دوسرے کو اطلاع کرتا اور دوسرا تیسرے کو اور یوں 21 ہزار کلومیٹر تک معلومات پہنچ جاتیں اگر دشمن حملہ آور ہو جاتا یا کسی قسم کا خطرہ ہوتا تو واچ ٹاورز آگ جلا کر پورے ملک کو اطلاع کر دیتے اور فوجیں فوراً گیٹس اور دیوار پر پہنچ جاتیں‘ دیوار سے دشمن پر گرم پانی‘ کھولتا ہوا تیل اور آگ پھینکنے کے لیے سوراخ بنے ہیں اور دشمنوں کوتیروں سے گھائل کرنے کے لیے پتھروں کی رکاوٹیں بھی۔یہ بندوبست قدیم چینی باشندوں کی سمجھ داری کی نشانی ہیں۔
ہم بیجنگ کی سائیڈ سے دیوار چین پر گئے‘ دیوار کا یہ حصہ بادا لنگ (Badaling) کہلاتا ہے اور یہ 1504ء میں منگ سلطنت کے دور میں بنا ‘ میں جب پہلی مرتبہ یہاں آیا تو ہمیں گاڑیاں دور کھڑی کر کے پیدل چل کر اوپر آنا پڑا‘ وہ مشقت سے بھرپور سفر تھا لیکن 2025ء میں حکومت نے دیوار چین کی سیاحت آسان کر دی ہے‘ ہم لوگ اپنی بس پر پارکنگ تک آئے‘ بس پارک کی اور پیدل آگے چل پڑے‘ دیوار کا پہلا گیٹ وہاں تھا‘ ہمارے پاسپورٹ سکین ہوئے اور ہم وسیع کمپائونڈ میں داخل ہو گئے‘ دائیں بائیں کافی شاپس‘ ریستوران اور سووینئر شاپس تھیں‘ آدھ کلومیٹر کے سفر کے بعد ہم شٹل سروس کے سٹیشن پر آگئے‘ وہاں سے سیاحوں کو الیکٹرک بسوں کے ذریعے سٹیج ٹو پر لایا جاتا ہے‘ وہاں سے پھر آدھ کلومیٹر پہاڑ کی چڑھائی ہے‘ یہ سفرلفٹ سے طے ہوتا ہے‘
لفٹ کے ذریعے تین فلور اوپر آنا پڑتا ہے‘ وہاں سے چیئر لفٹ کے ذریعے انتہائی بلندی پر پہنچا جاتا ہے اور اس کے بعد دس سیڑھیاں چڑھ کر دیوار چین پر پہنچ جاتے ہیں‘ یہ دیوار کا محفوظ اور خوب صورت ترین حصہ ہے‘ صدر اوبامہ نومبر 2009ء میں دیوار چین دیکھنے آئے تھے‘ چینی حکومت نے یہ سارا بندوبست ان کے لیے کیا تھا لیکن یہ اب سیاحوں کے کام آ رہا ہے‘ دیوار پر پہنچ کر سیر کی دو سائیڈز ہیں‘ آپ اگر دائیں نکل جائیں تو آپ اوپر نیچے چلتے ہوئے میلوں دور نکل جاتے ہیں جب کہ بائیں طرف بھی برجیاں اور سنگی دیوار ہے‘ ہمیں دور دور تک سبز پہاڑ پر برائون رنگ کا سانپ نظر آ رہا تھا‘ درمیان میں واچ ٹاورز تھے‘ دیوار کے ہر پورشن تک پہنچنے کے لیے واچ ٹاور کے اندر سے گزرنا پڑتا تھا‘ ٹاور کے دروازے اور گزرگاہیں تنگ تھیں‘ یہ دفاع کے مقصد کے لیے بنی تھیں تاکہ اگر دشمن دیوار پر چڑھ بھی جائے تو وہ ایک واچ ٹاور سے دوسرے واچ ٹاور تک نہ جا سکے‘ واچ ٹاور اس خوب صورتی سے بنائے گئے تھے کہ ایک ٹاور سے دوسرا ٹاور اور اس سے تیسرا صاف دکھائی دیتا تھا‘ میں نے درمیان میں کھڑے ہو کر دائیں اور پھر بائیں دیکھا تو مجھے دور دور تک تمام ٹاورز دکھائی دیے‘
یقینا پہاڑ کی دوسری سائیڈ پر بھی ایسے ہی ٹاورز ہوں گے‘ دیوار چین پر پہنچ کر احساس ہوتا ہے انسان کچھ بھی کر سکتا ہے بس فیصلہ کرنے کی دیر ہے‘ آپ ذرا تصور کیجیے یہ دیوار 221قبل مسیح میں شروع ہوئی‘ اس زمانے میں جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی‘ ان لوگوں نے نقشہ کیسے بنایا ہو گا‘ کھدائیاں کیسے کی ہوں گی‘ پتھر کہاں سے لائے گئے ہوں گے اور انہیں کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہو گا اور پھر دیوار کو بارشوں‘ زلزلوں اور یلغاروں سے کیسے محفوظ رکھا ہوگا؟ اس دور کا پورا چین اس دیوار کے اندر تھا‘ اس سے ندیاں بھی گزرتی تھیں‘ دریا بھی اور پہاڑ بھی لیکن کوئی قدرتی حملہ اسے نقصان پہنچا سکا اور نہ ہی کسی دشمن کی یلغار‘ دیوار منگولیا تک جاتی تھی‘ دنیا کا خوف ناک ترین صحرا گوبی بھی اس میں آتا تھا‘ آج کے چین کے دس صوبے اس میں تھے‘ چین کے پرانے بادشاہوں کا خیال تھا صحرا گوبی سے کوئی لشکر نہیں آ سکتا لیکن پھر دنیا نے عجیب منظر دیکھا‘ چنگیز خان اپنے دور کے وحشی ترین لوگوں کے ساتھ گوبی سے نکلا اور پوری دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ چنگیز خان کے پوتے قبلائی خان نے چین میں یوآن سلطنت کی بنیاد رکھی‘ یہ سلطنت 97سال چلتی رہی‘ قبلائی خان نے دنیا میں کرنسی نوٹ کا آغاز کیا تھا‘ اس کانوٹ یوآن کہلاتا تھا‘ یہ آج ساڑھے سات سو سال بعد بھی یوآن ہی کہلاتا ہے۔
دیوار چین گرمی میں تپ رہی تھی‘ دھوپ تیز اور ناقابل برداشت تھی‘ ہم نے آگے جانے کی کوشش کی لیکن گرمی راستے میں حائل ہو گئی‘ دیوار پر جگہ جگہ سلوپ بھی تھی اور سیڑھیاں بھی‘ سیڑھیاں شاید آج کے زمانے میں بنائی گئی تھیں‘ پرانے زمانے میں سلوپ تھیں تاکہ ان پر گھوڑے آسانی سے دوڑ سکیں‘ گھوڑوں کو پھسلن سے بچانے کے لیے پتھروں کے درمیان گیپ رکھا گیا تھا تاکہ وہ آسانی سے اوپر اور نیچے آ سکیں‘ دیوار کو شکست وریخت سے بچانے کے لیے پتھروں کے درمیان چونا بھرا گیا تھا‘ چونے کے آثار آج بھی نظر آتے ہیں‘ قدیم روایات کے مطابق دیوار دو ہزار تین سو سال میں مکمل ہوئی اور اس میں پانچ لاکھ لوگ مارے گئے‘ وہ غلام تھے اور ان کی ہڈیاں اور خون آج بھی دیوار کی بنیاد اور پتھروں میں موجود ہے‘ میں نے جب یہ سوچا یہ دیوار انسانی ہڈیوں اور خون سے بنائی گئی تھی تو جسم میں جھرجھری آ گئی اور میں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا۔