’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے ہو‘ میں نے اتنا مہنگا دہی آج تک نہیں دیکھا‘‘ وہ مسکرا کر بولا ’’تم درست کہتے ہو‘ میری بیوی بھی مجھے روز طعنے دیتی ہے لیکن میں کیا کروں مسئلہ اعتبار کا ہے‘ یہ دہی اٹالین میاں بیوی بناتے ہیں اور ہم دس دوست اس کے خریدار ہیں‘‘ اس نے اس کے بعد مجھے ڈبہ دکھایا‘ پلاسٹک کے ڈبے پر اس کے نام کا سٹکر لگا تھا‘
وہ اس کے بعد بولا ’’یہ دس ڈبے نام کے ساتھ آتے ہیں‘ ہم یہاں سے پک کر لیتے ہیں‘ ہم اگر نہ لیں تو لائین میں اور لوگ بھی موجود ہیں‘ یہ ان کے پاس چلا جائے گا اور اس کے بعد مجھے نہیں ملے گا‘‘ میں نے حیرت سے کہا ’’لیکن پاکستان میں چار ہزار چھ سو روپے کلو کا دہی میں نے پہلی بار دیکھا اور وہ بھی بکری کے دودھ کا‘ یہ ثابت کرتا ہے ملک میں ایک طرف لوگ دو تین ہزار روپے کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کی لائین میں لگتے ہیں اور دوسری طرف چار ہزار چھ سو روپے کا دہی خریدا جاتا ہے‘‘ وہ سن کر ہنسا اور بولا ’’یہ فرق دنیا کے ہر کونے میں ہے اور ہر دور میں رہتا ہے‘ خوش حال لوگ جتنے پیسوں میں ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں‘ وہ غریب آدمی کے پورے مہینے کا بجٹ ہوتا ہے‘ یہ فرق تھا‘ ہے اور رہے گا اور اگر یہ نہ رہے تو پھر دنیا میں کوئی شخص ترقی نہ کرے‘‘ وہ رک گیا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’اس دہی میں آخر ایسی کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے یہ مہنگا ہے؟‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’میں نے تمہیں بتایا یہ اٹالین میاں بیوی بناتے ہیں‘ یہ اٹلی سے پاکستان آئے‘ لاہور میں چھوٹی سی فیکٹری لگائی‘
بکریوں اور گائیوں کا دودھ جمع کرتے ہیں‘ ان کا دہی جماتے ہیں‘ اسے گریک یوگرٹ میں تبدیل کرتے ہیں اور اپنے چند درجن گاہکوں کو بھجوا دیتے ہیں‘‘ وہ رک گئے‘میں نے عرض کیا ’’لیکن دہی تو دہی ہوتا ہے‘ دودھ بھی دودھ ہوتا ہے‘بکریاں اٹالین کو دیکھ کر دودھ تو نہیں بدلتیں‘ دہی جمانے کا طریقہ بھی ایک ہے‘ اٹالین جمائیں یا پاکستانی لہٰذا آپ تین سو روپے کلوکا دہی چھوڑ کر چار ہزار چھ سو روپے کلو میں کیوں خرید رہے ہو؟ حاجی بشیر اعوان سے سستا اور تازہ دہی کیوں نہیں لیتے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’ میں کھانے پینے کے معاملے میں کسی حاجی اور پاکستانی پر اعتبار نہیں کرتا‘ گورا خواہ کتنا ہی بے ایمان کیوں نہ ہو جائے‘ یہ کم از کم خوراک اور ادویات میں گڑ بڑ نہیں کرے گا‘ اس نے اگر پیکٹ پر گوٹ مِلک لکھ دیا تو پھر اس کے اندر واقعی گوٹ مِلک ہو گا‘ اس کی ڈسپرین بھی ڈسپرین ہی ہو گی ‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے بحث کے لیے منہ کھولا لیکن پھر خاموش ہو گیا‘ وہ بات درست کر رہا تھا۔
میں مدت سے بزنس سیشن کر رہا ہوں‘ ہم ان میں لوگوں کو بزنس کی ٹریننگ دیتے ہیں‘ ہمارے ہر سیشن میں کوئی نہ کوئی صاحب اپنی کام یابی کی کہانی سناتے ہوئے یہ ضرور بتاتے ہیں ہمارے والد نے ہمیں ایمان داری کی وصیت کی تھی‘ ہمیں انہوں نے وقت کی پابندی‘ زبان کے بھرم‘ پورا تولنے اور خالص اشیاء بیچنے کا درس دیا تھا اور آج الحمد للہ ہم ترقی کر رہے ہیں وغیرہ وغیرہ‘ میںاس کے جواب میں عرض کرتا ہوں بھائی یورپ میں کسی بزنس مین کو والد خالص اشیائ‘ ناپ تول میں برابری‘ بات پر کھڑا ہونے‘ وقت کی قدر اور ایمان داری کا درس نہیں دیتا‘
یہ ساری خصوصیات ان کی زندگی کا لازم حصہ ہیں‘ یہ لوگ سوچ ہی نہیں سکتے بزنس مین بے ایمان‘ جھوٹا اور کم تولنے والا ہوگا جب کہ ہمیں یہ خصوصیات باقاعدہ سمجھانی پڑتی ہیں اور ہم میں سے اگر کوئی صفر اعشاریہ صفر فیصد لوگ اپنے والد کی بات پر یقین کرلیں تو یہ کام یاب ہو جاتے ہیں‘ آپ اس مسلمان معاشرے کی ٹریجڈی دیکھیے‘ آپ کو کسی حاجی‘ کسی مومن اور کسی بزرگ پر یقین نہیں ہو گا‘ آپ جس پر کریں گے اپنانقصان کرلیں گے کیوں کہ اس کے اندر چھپا درندہ بس آپ کی چوک کا انتظار کررہاہو گا‘ آپ کی چند سیکنڈ کے لیے آنکھ اِدھر سے اُدھر ہوئی نہیں اور اس نے آپ پر وار کیا نہیں‘
ہم کس قدر ’’ایمان دار‘‘ لوگ ہیں آپ اس کا اندازہ آب زم زم‘عجوہ کھجوروں اور شہد سے لگا لیجیے‘ کراچی کے چند مومنین آب زم زم فروخت کرتے تھے‘ تحقیق کے بعد معلوم ہوا انہوں نے کراچی میں آب زم زم کا پلانٹ لگایا ہوا تھا‘ ٹینکر کے پانی سے بوتل بھرتے تھے اور پھر اس میں تبرکاً تین چار قطرے آب زم زم ملادیتے تھے اور آب زم زم تیار‘ پاکستان میں اسی طرح سکھرکی کھجوروں کو کیمیکل میں ڈال کر عجوہ بھی بنا دیا جاتا ہے‘ آپ لوکل عجوہ کھا کر دیکھیں آپ کے منہ اور زبان پر چھالے نکل آئیں گے ‘ یہ اس کیمیکل کا کمال ہو گا جس کے ذریعے خالص عجوہ تخلیق کی جاتی ہے‘ آپ اسی طرح کسی شہد فروش کے پاس چلے جائیں آپ کو وہاں پیٹ تک داڑھی اور ماتھے پر محراب نظر آئے گا لیکن شہد یہ گھر میں تخلیق کریں گے اور اس میں یہ شہد کی مکھی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دیں گے‘ میں کافی لور ہوں لیکن میں نے کافی مکمل طور پر چھوڑ دی ‘ ملک سے باہر جاتا ہوں تو کافی پی لیتا ہوں‘ پاک سرزمین پر یہ گستاخی نہیں کرتا‘ اس کی وجہ بہت دل چسپ ہے‘ مجھے چند ماہ قبل پیٹ میں درد اور منہ میں چھالوں کی شکایت ہو گئی‘ میں نے کافی چھوڑدی تو یہ شکایت ختم ہو گئی‘ میں نے احتیاطاً چیک کرنے کے لیے دوبارہ کافی شروع کی تو شکایت دوبارہ واپس آ گئی جب کہ یہ شکایت ملک سے باہر نہیں ہوتی تھی‘ تحقیق کی تو پتا چلا کراچی کے ایک بزنس مین پاکستان میں کافی کے سب سے بڑے سپلائر ہیں‘
روسٹڈ کافی بینز پر ٹیکس زیادہ ہے چناں چہ یہ لاطینی امریکا‘ افریقہ اور یو اے ای سے بوریوں میں خام کافی بینز لاتے ہیں‘ انہیں کراچی میں روسٹ کرتے ہیں اور مختلف پیکٹوں میں بھر کر مختلف کافی شاپس کو سپلائی کر دیتے ہیں‘ ان کی روسٹنگ میں کوئی ایسی خرابی ہے جس کی وجہ سے معدے میں السر پیدا ہونے لگتا ہے‘ یہ لوگ کوئی کیمیکل استعمال کرتے ہیں یا پھر بھٹیوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے یا پھر ان کے پیکٹ کے اندرونی استر میں کوئی غیر معیاری کیمیکل لگا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کافی پینے والوں میں تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے‘ دوسری خرابی دودھ ہے‘ دودھ اس ملک میں صدر اور وزیراعظم کو بھی خالص نہیں ملتا‘ دودھ میں اگر کیمیکل ہو اور اسے کافی کے ساتھ ملایا جائے تو یہ انسانی معدے میں تیزابیت پیدا کر دیتا ہے اور تیسری خرابی کافی مشینیں ہیں‘ کافی کی ہرمشین کو رات کے وقت نمک سے آدھ سے ڈیڑھ گھنٹے تک صاف کرنا پڑتا ہے‘ ہماری زیادہ تر کافی شاپس میں یہ تکلیف نہیں کی جاتی چناں چہ مشین کی نلکیوں میں کافی کی تہہ جم جاتی ہے اور یہ دھات کے ساتھ مل کر کیمیکل ری ایکشن کرتی ہے‘ یہ بھی معدے کے لیے خطرناک ہوتی ہے لہٰذا ملک میں زیادہ تر لوگ کافی کے بعد ہیوی نس محسوس کرتے ہیں جب کہ یورپ اور امریکا میں تینوں چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔
میرے پاس چند دن قبل ایک صاحب تشریف لائے‘ یہ اپنے امام صاحب کے ڈسے ہوئے تھے‘امام صاحب کے ساتھ ان کا عقیدت کا رشتہ تھا‘ امام نے انہیں ایک دن اعتماد میں لے کر بتایا ان کا ایک عزیز لوگوں کو باہر بھجواتا ہے اگر آپ کا کوئی بندہ ہو تو مجھے بتایے گا‘ صاحب نے اپنا سالا ان کے حوالے کر دیا‘ امام صاحب نے پانچ لاکھ روپے لے کر اسے باہر بھجوا دیا‘ وہ واقعی پہنچ گیا‘ امام صاحب پر ان کا اعتماد بڑھ گیا‘ اگلی مرتبہ تین لوگ دیے گئے‘ وہ بھی پہنچ گئے‘ تیسری مرتبہ دس لوگوں کے پیسے جمع کرائے گئے‘اس کے بعد امام صاحب غائب ہو گئے اور دس لوگوں کے پیسے اسے ’’ٹھک‘‘ گئے یوں پیسہ اور ایمان دونوں گئے‘ مجھے ایک دوست نے بتایا‘ میں ایک نیک آدمی سے گائے کا دودھ خریدتا تھا‘ دو مہینے تک خالص دودھ ملتا رہا لیکن پھر بیوی نے شکایت کی پتیلی میں پائوڈر جمع ہو جاتا ہے اور کناروں پر تیل لگ جاتا ہے‘ انہوں نے تحقیق کی تو پتا چلا نیک دودھ فروش پانی میں مِلک پائوڈر گھول کر اس میں کھانے کا تیل ملا دیتا تھا اور بالائی پیدا کرنے کے لیے اس میں چائنہ کا کیمیکل ملا دیتا تھا یوں خالص دودھ تیار ہو جاتا تھا‘ وہ صاحب اگلے دن دودھ لے کر نیک آدمی کے گھر پہنچ گئے‘ گھر والوں نے بتایامولوی صاحب نماز کے لیے مسجد گئے ہوئے ہیں‘ وہ دودھ کی بالٹی لے کر مسجد پہنچ گئے اور اس کے بعد نیک آدمی کی نیکی پوری مسجد کے سامنے کھول دی‘ مسجد میں انہیں نیا تجربہ ہوا‘ لوگ ’’نیک آدمی‘‘ کی مذمت کی بجائے انہیں سمجھانے میں مصروف ہو گئے‘ آدھے نمازیوں کا کہنا تھا ’’آپ کو کم از کم مسجد کا احترام کرنا چاہیے تھا جب کہ آدھے فرما رہے تھے ’’چھڈو جی چھڈو‘ جانے دیں‘ دل بڑا رکھیں‘ برداشت کریں‘ اللہ کے نزدیک برداشت اور وسعت قلبی کا بہت بڑا مقام ہے‘‘ وہ صاحب دودھ کی بالٹی مسجد میں رکھ کر واپس آ گئے۔
میں نے سوچا جس ملک میں یہ صورت حال ہو اس میں یہ بے چارہ پاکستانی بکری کا پاکستانی دہی اٹالین سے کیوں نہ خریدے؟