کوپن ہی گن (نیوز ڈیسک) ڈنمارک اور کینیڈا کے سائنسدانوں نے مہلک مرض سرطان کا تحقیق کے دوران حادثاتی طورپر علاج دریافت کرلیا۔ڈنمارک کے محققین حاملہ خاتون کو ملیریا سے بچانے کے طریقہ کار پر غور کررہے تھے۔ملیریا میں مبتلا ہونے کے باعث حمل کے تیسرے ماہ ماں کے پیٹ میں بچے اور ماں کے رحم کی اندرونی دیوار کیساتھ ملحق نالی نما ساخت آنول (پلیسنٹا)جس کے ذریعے بچہ خوراک اور آکسیجن حاصل کرتاہے اور اس میں بند رہتاہے،کیلئے بہت بڑے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔اس تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے اس بات کا بھی کھوج لگا لیا کہ ملیریا پروٹین ایک ہی وقت میں کینسر پر بھی حملہ آور ہوتی ہے۔ اس پیشرفت نے محققین کیلئے کینسر کے علاج میں مزید آگے بڑھنے کیلئے دروازہ کھول دیا۔یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے محقق علی سالانتی نے سرطان سے متعلق ایک تحقیقی رسالے کینسر سیل کو بتایاکہ سائنسدان کئی عشروں سے اس پلیسنٹا (آنول)اورٹیومر (رسولی)کے درمیان نشوونما کی مماثلت پر تحقیق کررہے ہیں۔اس عمل کا پہلے ہی خلیوں اور کینسر سے متاثرہ چوہوں پر تجربہ کیاگیاہے۔سائنسدانوں نے اس امیدکا اظہار کیا ہے کہ وہ اس دریافت کے اگلے چار سالوں میں انسانوں پر تجربات شروع کریں گے۔اس وقت سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ انسانی جسم میں کام کرے گا اور اس خوراک کو انسان پر بغیر کسی مضر اثرات کے یقینی بناناہے۔انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے ہم پر امید ہیں کیونکہ یہ پروٹین صرف اپنے آپ کو اس کاربو ہائیڈریٹ سے ہی منسلک کررہی ہے جو انسانوں میں پائی جانے والی رسولی اور پلیسنٹا میں پائی جاتی ہے۔برٹش کولمبیا کے کینیڈا یونیورسٹی میں سرطان کے محقق اور سائنسدان میڈز ڈوگارڈ نے کہاکہ ہم ملیریا پروٹین کو الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو اپنے آپ کو صرف کاربوہائیڈریٹ (گلوکوز ، شکر ، نشاستہ اور سلولوز پر مشتمل نشاستہ دارغذا)سے منسلک کرتی ہے اور اس کے بعد نامیاتی زہر کا اضافہ کرتی ہے۔انہوں نے کہاکہ چوہوں پر تجربات کے بعد ہم پروٹین اور کینسر کے خلیوں کو ہلاک کرنے والے نامیاتی زہر کو ملانے کے قابل ہوچکے ہیں۔