جمعرات‬‮ ، 18 ستمبر‬‮ 2025 

سعودی خاتون نے مدینہ منورہ میں ایک گھر کو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا دیا

datetime 22  ‬‮نومبر‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاض (این این آئی )سعودی عرب میں ثقافتی ورثے کے احیا کی جانب ایک اہم قدم کے طور پر نوجوان خاتون می المسلم نے مدینہ منورہ میں سو سال سے زیادہ پرانے ایک تاریخی گھر کو سیاحوں کی توجہ کے ایک منفرد مقام میں تبدیل کردیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے مستند شہری تعمیراتی انداز کو مجسم بنا کر سیاحوں کو ایک بھرپور تجربہ فراہم کرنے کے لیے کام کیا۔عرب ٹی وی کے مطابق اپنی گفتگو میں می المسلم نے وضاحت کی کہ یہ آئیڈیا صرف سیاحت تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد مختلف ثقافتی اور ورثے کی سرگرمیوں کے ذریعے مدینہ منورہ کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں گہرا ادراک بڑھانا ہے۔ اس میں مستقبل کے لیے ایک ویژن موجود ہے۔ اس کام کی سعودی عرب کے تمام خطوں میں توسیع کی کوشش کی جائے گی۔ یہ ایک مربوط تجربہ ہے جو شہر کے بھرپور ورثے کی عکاسی کر رہا ہے اور دنیا کی نظروں میں اس کی روشن تصویر کو پیش کر رہا ہے۔

می المسمل نے کہا کہ یہ گھر 100 سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ہمیں ایک ایسا ہیریٹیج آئیڈیا بنانے کی ترغیب ملی جس سے سیاحوں کو فائدہ پہنچے اور انہیں شہر، اس کی تہذیب اور وہاں کی زندگی کی نوعیت سے متعارف کرایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ مدینہ منورہ کے ثقافتی ورثے کو مجسم کرنے اور مقامی ماحول کے لیے مہمان نوازی کو بڑھانے کا ایک منفرد تجربہ پیش کرتا ہے۔خاتون می المسلم نے کہا کہ ہم نے اس سرائے کے اندر تعمیرات، فرنیچر اور بنیادی چیزوں اور آسائشوں کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کے لحاظ سے ماضی کی نقالی کی ہے۔ تمام تفصیلات کی مکمل تصویر کے ساتھ ماضی میں لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسے مکمل طور پر ایسے گھروں کی اشیا سے لیس کیا ہے جو یا سرائے گھر کے لوگوں یا مہمانوں کی خدمت کے لیے ہوتی تھیں۔ اس میں استقبالیہ، رہائش، مہمان نوازی، راہداری، بیٹھک وغیرہ کے ہر مقام پر توجہ دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم پڑوس میں موجود مقامی تجربے کے علاوہ شہر کے سب سے نمایاں ورثے اور مذہبی مقامات کے بارے میں جاننے کے لیے ایک خصوصی گائیڈ فراہم کرتے ہیں۔می المسلم نے مزید کہا گھر کی تاریخ 100 سال سے زیادہ پرانی ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب اس گھر کو اس پیشہ ورانہ انداز میں بحال کیا گیا ہے۔ ہمارا مقصد، سب سے پہلے مدینہ منورہ کے ورثے اور ثقافت کی تصویر کو زندہ کرنا ہے۔ اس کی تصویر کشی کرنا ہے اور اسے اس زمانے اور دور میں ایک بار پھر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے جیسا کہ یہ مکمل تصویر میں بغیر کسی کمی اور تبدیلی کے تھا۔ اس جگہ کو آرکیٹیکچرل کردار سے آراستہ کیا گیا۔ فرنیچر اور بیرونی فنشنگ کی گئی۔ یہاں تک کہ مکمل مہمان نوازی کے لیے اسے ہر دستاویزی وراثت کے ساتھ ہم آہنگ بنایا گیا۔



کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…