لا ڑکانہ۔۔۔۔۔پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے دو ماہ کے لگ بھگ بیرون ملک قیام اور والدہ کی برسی میں عدم شرکت نے مختلف افواہوں کو جنم دیا ہے۔آج ان کی والدہ اور پارٹی کی چیئرمین سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی ساتویں برسی گڑھی خدا بخش میں منائی جارہی ہے۔ لیکن وہ اس برسی میں شریک نہیں ہو رہے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو والد سے ناراض ہوکر لندن چلے گئے تھے۔ اور گزشتہ ہفتے آصف علی زرداری بیٹے کو منانے اور والدہ کی برسی میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے لندن گئے تھے۔باپ بیٹے کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟ اس کے بارے میں کوئی مصدقہ تفصیلات موجود نہیں۔ لیکن نوجوان بلاول والدہ کی برسی میں شریک نہیں ہو رہے ہیں۔بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد بلاول بھٹو کو جب پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا اس وقت یہ سوالات اٹھائے جا رہے تھے کہ نوجوان بلاول اور ان کے والد آصف زرداری کے درمیان سیاسی معاملات کس طرح سے چل سکیں گے؟ کیا بلاول بھٹو کو فری ہینڈ دیا جائے گا کہ وہ اپنے طور پر فیصلے کرنے کی اجازت دیں گے۔؟بلاول نے اپنی پسند کی ٹیم کے بجائے والد کی ٹیم کے ساتھ کام کر شروع کیا۔بعد کے واقعات نے نئے اور پرانے کے درمیان خلیج کی نشاندہی کی۔پہلی مرتبہ یہ خلیج تھر میں قحط کے حوالے سے سامنے آئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ تھر میں قحط کے باعث بچوں کی اموات کی تردید کر رہے تھے۔ لیکن دوسرے دن ہی بلاول بھٹو نے قحط سالی اور بچوں کی اموات کا نوٹس لیا۔ اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی۔
صوبائی حکومت کو بحالت مجبوری اقدامات کرنے پڑے۔ اور وزیر اعلیٰ نے متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور صوبائی وزیر رلیف کو معطل کرکے تحقیقات کا حکم دیا۔ڈپٹی کمشنر اور صوبائی وزیر دونوں پارٹی کے وائیس چیئرمن مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے اس حکم پر بااثر مخدوم خاندان ناراض ہوگیا۔
پیپلز پارٹی نے اکتوبر میں کراچی میں ایک بڑا عوامی جلسہ منعقد کیا تھا۔پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کو مداخلت کرنی پڑی۔انھوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو مخدوم خاندان کے خلاف فیصلہ واپس لینے کی ہدایت کی۔ پارٹی کے اندر نئے اور پرانے کی جنگ تیز ہوتی گئی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ کہنا پڑا کہ ان کو ہٹانے کی سازش کی گئی تھی۔قحط کی وجہ سے تھر میں مزید صورتحال خراب ہوتی رہی۔ آصف علی زرداری نے پارٹی کے سینئر عہدیدار اور صوبائی وزیر منظور وسان کو معاملے کی تحقیقات کے لیے تھر بھیجا۔ ان کی پیش کردہ رپورٹ پر ایک بار پھر بلاول بھٹو نے نوٹس لیا اور وزیراعلیٰ سندھ اور آصف علی زرداری کی ہدایت پر تحقیقات کرنے والے صوبائی وزیر دونوں کو شو کاز نوٹس جاری کر دیئے۔اکتوبر میں پارٹی نے بڑا جلسہ کرنے کے بعد لاہور میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر جلسے کا انتظام کیا گیا۔ پروگرام کے مطابق بلاول بھٹو کو اس جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ لیکن وہ اس جلسے میں شریک نہیں ہوئے۔پارٹی قیادت نے کارکنوں کو بتایا کہ پارٹی چیئرمین کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے وہ جلسے میں شرکت نہیں کر سکیں گے۔ اس موقع پر انھوں نے بذریعہ ٹوئٹر کارکنوں کو بتایا کہ وہ جلسے میں آنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ڈاکٹر اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ا س دوران بلاول بھٹو نے متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف بیانات دیئے۔ جس کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی۔ جس پرآصف علی زرادری نے مبینہ طور پر بلاول کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو سیاست سے دور رکھیں۔یہ خلیج مزید بڑھتی ہوئی اس وقت محسوس کی گئی جب بلاول بھٹو نے والد سے مشورہ کیے بغیر پارٹی کے دو پرانے جیالوں جہانگیربدر کو اپنا سیاسی مشیر اور بشیر ریاض کو پریس سیکریٹری مقرر کردیا۔پارٹی کے وائس چیئرمین امین فہیم نے اپنی تقریر میں پارٹی میں اختلافات اور گروہ بندی کا ذکر کیا۔یوم تاسیس کے موقع پر مختلف چمہ گوئیاں ہوتی رہیں۔ آصف علی زرادری کے حوالے سے یہ خبریں شائع ہوئیں کہ بلاول بھٹو کو اس وقت فری ہینڈ دیا جائے گا جب سیاسی طور پر بالغ ہوں گے۔تمام وضاحتوں کے باوجود پارٹی کے وائس چیئرمین مخدوم امین فہیم الگ راستہ لیے ہوئے ہیں۔پارٹی کو آج تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے چیلینجوں کا سامنا ہے، اور پارٹی نے قیادت کی ہینڈنگ اوور اور ٹیکنگ اوور کی جا رہی ہے۔ ایسے موقع پر یہ صورتحال پارٹی کے لیے بہت بڑے سیاسی
بلاول ہمیشہ کیلئے کیوں ناراض ہو گئے ، کلک کر کے جانئے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں