نیویارک(این این آئی)اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں 50 سے زیادہ ممالک اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت اور منتقلی روکنے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ اس بات کے شبہے کی مناسب وجوہات موجود ہیں کہ یہ عسکری ساز و سامان غزہ اور مغربی جنارے میں استعمال کیا جائے گا جو تنازع کا شکار ہیں۔یہ بات اقوام متحدہ کے زیر انتظام دونوں اداروں اور تنظیم کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو پیر کے روز بھیجے گئے ایک خط میں کہی گئی۔
خط میں مذکورہ ممالک نے اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ سمیت فلسطینی اراضی، لبنان اور بقیہ مشرق وسطیٰ میں بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔خط میں لکھا گیا ہے کہ قابض طاقت اسرائیل کی جانب سے ایک سال سے زیادہ عرصے سے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کے سبب شہریوں کی ہلاکتوں کی حیران کن تعداد جس میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، یہ نا قابل برداشت اور نا قابل قبول ہے … ہمیں فوری طور پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن سے شدید انسانی المیے اور علاقائی عدم استحکام کو روکا جا سکے جو خطے میں ایک وسیع جنگ چھیڑنے کا خطرہ بن سکتا ہے۔
خط میں سلامتی کونسل پر زور دیا گیا ہے کہ اس المیے سے گریز کے لیے فوری فائر بندی کا اعلان کیا جائے اور شہریوں کے تحفظ کے لیے سابقہ قرار دادوں پر عمل درآمد کے اقدامات کیے جائیں۔ ساتھ ہی اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی روکنے کا واضح مطالبہ جاری کیا جائے۔ادھر اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی دانون نے اس خط میں ترکی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسی ریاست سے کیا توقع کر سکتے ہیں جو شر پسندی سے مغلوب ہو کر شر کے محور کی حمایت سے تنازعات بھڑکانے کی کوشش میں مصروف ہو؟یاد رہے کہ شر کا محور کی اصطلاح پہلی مرتبہ سابق امریکی صدر جارج بش نے آران، شمالی کوریا اور عراق کی طرف اشارے کے لیے استعمال کی تھی۔ڈینی دانون نے ایک بیان میں واضح کیا کہ ہم کسی بھی سیاسی یا فوجی حملے کے مقابل اسرائیلی ریاست کے مفادات کی خاطر مزاحمت جاری رکھیں گے۔