اسلام آباد(این این آئی)وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات پر بھی آرمی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا تو پھر اس ایکٹ کو رکھا ہی کیوں ہے ؟ایکٹ موجود ہے تو پھر اس کے تحت کارروائی ہوگی، ملٹری کورٹ بارے عمران خان کی جانب سے جو ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی ہے اس پر مجھے بڑا شک ہورہاہے کہ ان کے پاس باقاعدہ کوئی ایسا ذمہ دارانہ وجہ ہے جس کے تحت یہ پٹیشن دائر کی ہے، وزیراعظم نے فلور آف دا ہائوس پہ واضح بات کی کہ آئیں بیٹھیں ،ہم ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں،ملکی مسائل کا حل نکالنا ہے تو رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا، ٹاپ سٹی معاملات کے وقت ہماری حکومت تھی ،یہ کام جنرل ریٹائرڈ فیض ہی کر رہے تھے ۔
نجی ٹی وی کے پروگرا م میں گفتگوکرتے ہوئے راناثنا ء اللہ نے کہاکہ سپیکر کے چیمبر میں اپوزیشن ارکان آتے جاتے ہیں، سپیکر کے چیمبر کا ہمیشہ نیوٹرل رول ہوتا ہے۔انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے مسئلے پر اپوزیشن کا ابھی تک موقف واضح نہیں۔راناثناء اللہ نے کہاکہ نوازشریف نے واضح الفا ظ میں کہا کہ ملکی مسائل پر سب کو بیٹھنا چاہیے،پی ٹی آئی میں فیصلے صرف بانی پی ٹی آئی کرتے ہیں، فیصلوں میں دیگر پارٹی رہنمائوں کا کوئی خاص رول نظر نہیں آتا،وزیراعظم نے اسمبلی کے فلور پر مذاکرات کی دعوت دی تھی، ملکی مسائل کا حل نکالنا ہے تو رویوں کو تبدیل کرنا ہوگا،موجودہ حالات میں پی ٹی آئی رہنمائوں کے رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی،پی ٹی آئی کے رویے میں جہاں ضرورت ہے وہاں تبدیلی نظر نہیں آتی۔
انہوںنے کہاکہ ملٹری ٹرائل کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی کے پاس کوئی ٹھوس خبر ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے،بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل کا فیصلہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کریں ، حکومت کا ملٹری ٹرائل کا ساتھ کوئی تعلق نہیں۔مشیروزیراعظم نے کہاکہ جیل میں موبائل استعمال کرنے کی خبر افواہ بھی ہوسکتی ہے،موبائل کے استعمال سے متعلق کوئی رائے نہیں دے سکتا۔انہوںنے کہاکہ اڈیالا جیل کا صبح 7بجے تالا آئی جی اسلام آباد نے کھلوایا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نو مئی کے حوالے سے نواز شریف نے جو بات کی ہے اس میں انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے،انہوں نے کہا کہ سب کو بیٹھ کر ملک کے درپیش مسائل حل کرنے چاہیے۔
راناثناء اللہ نے کہاکہ وزیراعظم نے فلور آف دا ہائوس پہ بڑے واضح بات کی کہ آئیں بیٹھیں ہم ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن موجود تھی جہاں تبدیلی نظر آنا چاہیے وہاں نظر نہیں آرہی ہے۔انہوںنے کہاکہ محمود اچکزائی بڑے کلیئر ہیں لیکن ان سے آگے والی بات کلیئر نہیں ہے، محمود چکزائی کو جو مینڈیٹ دیا ہے بس وہ اسی طرح کا مینڈیٹ ہے۔انہوںنے کہاکہ ملٹری کورٹ کے حوالے سے عمران خان کی جانب سے جو ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر ہوئی ہے اس پر مجھے بڑا شک ہو رہا ہے، عمران خان کے پاس باقاعدہ کوئی ایسا ذمہ دارانہ وجہ ہے جس کے تحت انہوں نے یہ پٹیشن دائر کی ہے۔
انہوںنے کہاکہ شاید عمران خان سمجھتے ہیں کہ کچھ ایسے معاملات سامنے آئے تو اور جنرل (ر)فیض ہیں وہ وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی سب سے عمران خان کی پٹیشن کی وجہ سے کافی شک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔عمران خان کاملٹری کورٹ میں ٹرائل ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ جب شواہد سامنے آئیں گے تب ہی کچھ کہا جا سکتا ہے ،اگر کوئی سیریس ہی سامنے آتی ہے تو اس پر فیصلہ کیا جائے گا جس طرح کہ نو مئی کے واقعات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں اگر وہاں پر بھی آرمی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا تو پھر اس ایکٹ کو رکھا کیوں ہے اگر ایکٹ اتنا ہی غیر متعلقہ ہے تو پھر اسے رکھنے کا کیا فائدہ ہے ؟ایکٹ موجود ہے تو پھر اس کے تحت کارروائی ہوگی۔
مشیروزیراعظم نے کہاکہ ملٹری کورٹ میں کیس چلنے کے حوالے سے فیصلہ ہم نے نہیں متعلقہ عدالت نے کرنا ہے۔رانا ثناء اللہ نے کہاکہ ٹاپ سٹی کے معاملات جب ہو رہے تھے اس وقت ہماری حکومت تھی وہ یہ کام جنرل ریٹائرڈ فیض ہی کر رہے تھے اور ان کے بھائی بھی اس میںشامل تھے۔