اسلام آباد (این این آئی)پاکستان بھر میں سالانہ 40 ارب روپے کی گیس چوری کا انکشاف ہوا ہے۔سید مصطفی محمودکی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس کے دوران ڈائریکٹر جنرل گیس نے بتایا کہ ملک میں سالانہ 40 ارب روپے کی گیس چوری ہوتی ہے، سوئی سدرن میں 25 ارب روپے سے زیادہ گیس چوری ہوتی ہے۔حکام پیٹرولیم ڈویژن نے نے بتایا کہ گیس سیکٹر کا گردشی قرض 2 ہزار ارب روپے ہے، سیکریٹری پٹرولیم نے کہا کہ چھوٹے گھریلو گیس صارفین کو گیس پر 130 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے اور اس سبسڈی کو دیگر صارفین پر منتقل کیا جاتا ہے۔
ڈی جی گیس کہا کہ ایل این جی بیچنا ہمارے لیے مسئلہ بن رہا ہے ، سوئی سدرن میں گیس کے 12 فیصد نقصانات ہیں جبکہ سوئی ناردرن میں گیس نقصانات 6 فیصد ہیں۔سیکرٹری پیٹرولیم مومن آغا نے اجلاس میں بتایا کہ ملک میں ایل این جی سمیت گیس کی 4 ارب 20 کروڑ مکعب فٹ یومیہ گیس سپلائی ہوتی ہے، مجموعی گیس سپلائی میں ایک ارب مکعب فٹ یومیہ ایل این جی شامل ہے، ڈی جی گیس نے کہا کہ پاور سیکٹر یا پوری ایل این جی اٹھائے یا اس کا کوئی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
اس پر ڈی جی پیٹرولیم کنسیشنز کاشف علی عباسی نے بتایا کہ سمندرمیں کیکڑا کے مقام پر گیس ویل ڈرائی نکلنے کے بعد کوئی کمپنی آف شور میں نہیں آ رہی۔سیکرٹری پیٹرولیم مومن آغا نے بتایا کہ ایک مرتبہ حکومت روس سیخام تیل کا ٹیسٹ کا رگو لائی، اب یہ آرہا ہے تو پرائیویٹ سیکٹر لا رہا ہے ، روسی خام تیل پر60 ڈالر فی بیرل کا کیپ لگا ہوا ہے، اگر اس سے اوپرخریداجائے گا تو امریکی پابندیاں آڑے آئیں گی۔اس سے قبل اجلاس میں رکن کمیٹی اسد عالم نیازی نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن اگلے پانچ سال کا پلان پیش کریں، رکن کمیٹی میاں خان کے مطابق گیس پیداواری علاقوں میں کام کرنے والی کمپنیاں متعلقہ ممبر قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیتے۔اس پر کمیٹی کے چیئرمین سید مصطفی محمود نے کہا کہ ہم پیٹرولیم کے ہر سیکٹر پر جامع بریفنگ لیں گے، ڈی جی پیٹرولیم کنسیشنز کاشف علی عباسی نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ آج تک ملک میں تیل و گیس کی تلاش کے 149 لائسنس دیے گئے، ملک میں آج تک کل تیل و گیس کی 467 دریافتیں ہوئیں، تیل کی 96 اورگیس کی 371 دریافتیں ہوئیں۔
بعد ازاں وزیر پٹرولیم مصدق ملک نے اجلاس کو بتایا کہ عالمی سطح پر ایل این جی سپلائی بڑھ رہی ہے ، قطر آئندہ سال سے ایل این جی سپلائی میں 33 فیصد اضافہ کر رہا ہے، آسٹریلیا بھی ایل این جی سپلائی بڑھا رہا ہے ، پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی تلاش کا عمل بڑھانے کی ضرورت ہے، ملک میں تیل اور گیس کم ہوتی جاری ہے۔انہوںنے کہاکہ فیول کے معاملے پر کیش فلو کے مسائل ہیں، پی ایس او کو بھی مشکلات ہیں۔اراکین کمیٹی نے سوال کیا کہ پاکستان سے بڑی بڑی کمپنیاں جا کیوں جا رہی ہیں؟ جس پر وزیر نے بتایا کہ عالمی کمپنیاں ادھر رخ کرتی ہیں جہاں کاروبار کر نا آسان ہو، پاکستان میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے سیکیورٹی کاسٹ بھی مسئلہ ہے، جن علاقوں میں کمپنیوں نے تیل و گیس کی تلاش کرنی ہوتی ہے وہاں سیکیورٹی پر بھی خرچہ ہوتا ہے، پاکستان میں آن شور اور آف شور میں سرمایہ کاری کے لیے دو چینی کمپنیوں سے بات چیت جاری ہے، تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق نئی پالیسی پر بھی کام کر رہے ہیں۔وفاقی وزیر کے مطابق ملک میں 27 فیصد لوگ گیس حاصل کرتے ہیں تیل اور گیس کی تلاش سے متعلق نئی پالیسی پر بھی کام کر رہے ہیں، ملک میں 27 فیصد لوگ گیس اور 5 فیصد لوگ ایل پی جی حاصل کرتے ہیں۔