کراچی(نیوزڈیسک) سندھ کے دارلحکومت کراچی اورخیبرپختونخومیں گٹکے اورنسوارکاکاروبارعروج پرپہنچ گیا۔خیبر پختونخواہ میں روزانہ 3کروڑ روپے کی نسوار استعمال کی جاتی ہے جبکہ کراچی میں روزآنہ چار سے پانچ لاکھکا گٹکا بہ آسانی فروخت ہوجاتا ہے،ایک تحقیق کے مطابق 13 سے 15 سال کی عمر کے نوجوانوں میں گٹکا اور نسوار کے استعمال کے رحجان میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔یہ بات آغا خان یونیورسٹی میڈیکل ہسپتال کے ڈاکٹر محمد وارث پنجانی نے گزشتہ شام محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی میں منائے جانے والے ہیلتھ کئیر ڈے کے موقع پر دیئے جانے والے ایک لیکچر کے دوران بتائی ۔انہوں نے کہا کہ پان،چھالیہ،چونا،گٹکا، نسوار اور سگریٹ کے استعمال کی بنا پر منہ اور پھپڑوں کے کینسر کے 70 فی صد امکانات پیدا ہوجاتے ہیں ،کینسر ہوجانے کے بعد ایک مریض کی جانب سے پانچ سال تک بہترین علاج کرانے کے باوجود اس کے زندہ بچنے کے امکانات 50 فی صد رہ جاتے ہیں اور اگر وہ بچ بھی جائے تو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کینسر کا واحد علاج سرجری ہے اور اگر کینسر پورے جسم میں پھیل جائے تو پھر اس علاج ممکن نہیں رہتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ منہ میں چھالا ہوجائے تو اس کے علاج میں غفلت نہ برتنی چاہیے اور اگر تین ہفتہ تک علاج کے باوجود وہ ختم نہ ہورہا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرکے بیاپسی کرانی چاہیے تاکہ مرض کی صحیح تشخیص ہو سکے۔ڈاکٹر وارث نے نوجوان طبقہ میں گٹکا کے بڑھتے استعمال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طلبہ کو بتایا کہ اس کے استعمال کا سب سے بڑا نقصان معدہ،منہ اور خوراک کی نالی کو ہوتا ہے اور اس کو پابندی سے کھانے والوں کے دانت اور مسوڑھے خراب ہو جاتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ گٹکا استعمال کرنے والے افرادنفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں جن میں بے خوابی اور ڈپریشن قابل ذکر ہیں،علاوہ ازیں گٹکا استعمال کرنے والوں کو سینہ میں درد،دل کی دھڑکن تیز ہوجانے اور نبض بے ترتیب ہو جانے کی بھی شکایات پیدا ہوجاتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل سگریٹ نوشی کے عادی افراد بالآخر پھپڑوں کے سرطان کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی جان بچانے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔انہوں نے طلبہ پر زور دیا کہ اچھی صحت کے حامل نوجوان ایک اچھے معاشرہ کی تخلیق میں مثبت رول انجام دے سکتے ہیں اس لئے چاہیے کہ وہ ایک خوشگوار زندگی گذارنے کے لئے سگریٹ،شیشہ، نسوار،پان،چھالیہ،چونا اور گٹکا کے استعمال سے اپنے آپ کو دور رکھیماہرین نے کہاہے کہ یہ کاروبارتوٹھیک ہے لیکن اس سے شہریوں کی صحت کونقصان کازیادہ خدشہ ہے ۔