اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پرسماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، وقت آگیا ہے ملک آئین کے مطابق چلایا جائے ۔چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کیس کی براہ راست سماعت کی ۔جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں تھیں۔سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کا قدرتی حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا، آرٹیکل 51 اور 106 سے 3 ضروری نکات بتانا ضروری ہے، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو آپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل کو کیسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کردیں، ہم ایسا کیوں کریں؟وکیل نے جواب دیا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں رہی لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی؟ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے،جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی زیلی شق 2 پڑھیں، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں، پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکرا میں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، آپ لوگ نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔وکیل نے جواب دیا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، آپ صرف آئین پر رہیں۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے دوبارہ ریمارکس دیے کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا، پی ٹی آئی کے صدر تھے، انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، عمران خان وزیر اعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی؟ وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجا دیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔وکیل نے دلائل دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے؟ چیف جسٹس نے انہیں بتایا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، ہمارے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں؟کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے،ب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا؟ کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟ اس پر وکیل سنی اتحاد کونلس فیصل صدیقی نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔اس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کروائے؟ الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے؟ عارف علوی تھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کے لیے، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے آٹھ لاکھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر گیا؟ یہاں آدھی بات نہ کریں۔اس پر وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کے لیے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بج کر 30 منٹ تک وقفہ کیا۔سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ الیکشن کمیشن مقرر کرتا ہے، کیا پی ٹی آئی نے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی تھی؟ وکیل نے بتایا کہ ہم نے امیدواروں کی فہرست جمع نہیں کرائی تھی، مخصوص نشستوں میں لسٹ کا نہیں شیڈیول کا مسئلہ ہے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کی جماعت سیاسی جماعت ہے؟ اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں تو آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟ متناسب نمائندگی کا اصول سنی اتحاد کونسل پر کیسے لاگو ہوگا؟ کیا آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں خالی رہیں گی؟وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جاسکتیں۔جسٹس منصور علی شاپ نے ریمارکس دئیے کہ جو جماعت سیاسی نہیں اور الیکشن نہیں لڑی اس کی مخصوص نشستیں کہاں جائیں گیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے طریقہ کار دیکھنا پڑے گا۔اس موقع پر چیف جسٹ نے وکیل سنی اتحاد کونسل سے مکالمہ کیا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے، وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں الیکشن کے بعد ملتیں ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے بتانا ہے کہ آپ سیاسی جماعت ہیں لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے۔وکیل نے کہا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں، میرا نقطہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو شروع میں کہا تھا کہ ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، کیا سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک ہے؟وکیل نے کہا کہ نہیں سنی اتحاد کونسل کا منشور پی ٹی آئی سے الگ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کل کو سنی اتحاد کونسل کے ارکان یہ جماعت بھی چھوڑ جائیں تو کیا ہوگا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں اس پر سوال اٹھا ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اقرار کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے، اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی تو پھر تین روز میں فہرست دینے کی اسٹیج سے نشستوں کے حوالے سے کام شروع ہوگا۔وکیل نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوال پوچھا تھا اس کا جواب بھی دیتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا میرے سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کو باقی ججز کی اجازت چاہیے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے۔بعد ازاں جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ وکیل نے کہا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں، کیا آپ کی پارٹی کا آئین آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور افسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔
وکیل نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے، ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا، میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا، ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ملک آئین کے مطابق چلا ہی کب ہے؟اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے۔اسی کے ساتھ وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے۔بعد ازاں وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد جان درانی نے دلائل کا آغاز کر دیا، انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے، فیصل صدیقی تفصیل سے دلائل دے چکے، ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو بعد میں معاونت کے لیے تیار ہوں۔اس کے ساتھ ہی وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کے دلائل مکمل ہوئے۔