ریاض ( آن لائن )سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے مکہ مکرمہ میں المعیصم کے مقام پر ایمرجنسی آڈیٹوریم کے مرکزی سرد خانے کا دورہ کیا اور وہاں پر رکھے گئے منیٰ حادثے کے شہدائ کے جسد خاکی کا جائزہ لیا ہے۔ انسانی حقوق کی ٹیم نے ایمرجنسی آڈیٹوریم کے حکام سے بھی بات چیت کی۔ اْنہوں نے وضاحت کے ساتھ کہا ہے کہ شہید ہونے والوں کو اجتماعی قبروں میں سپرد خاک نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر شہید کو الگ الگ قبر میں دفن کیا جائے گا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کے کارکنوں نے مرکزی سرد خانے میں رکھی شہدائ کی لاشوں کا معائنہ کرنے کے بعد میتوں کی پروسیسنگ گیلریوں اور سیکریننک ہال کا بھی جائزہ لیا۔ اس موقع پر جن شہدائ کے لواحقین اپنے پیاروں کو مکہ مکرمہ ہی میں دفن کرنے کے خواہاں ہیں ان سے بھی ملاقات کی گئی اور مکہ میں تیار کی گئی قبروں کا بھی جائزہ لیا گیا۔مقامی حکومتی عہدیداروں نے انسانی حقوق کی ٹیم کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ منیٰ حادثے میں مارے جانے والے حجاج کرام کی تجہیز وتکفین اور ان کی الگ الگ نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد المعیصم قبرستان میں سپرد خاک کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر فلاحی اداروں کی جانب سے میتوں کو غسل اور کفن دفن کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی ٹیم نے میتوں کے لیے غسل کے مقامات کا بھی معائنہ کیا۔ٹیم کو بتایا گیا کہ حکومت اور شہید حجاج کی تدفین میں معاونت کرنے والی فلاحی تنظیموں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور تعاون موجود ہے۔ کسی بھی شہید کے جسد خاکی کو دفن کرنے سے قبل اس کی تمام تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں، جب تک میت کے ورثائ اس کی تدفین کی اجازت نہ دیں دفن نہیں کیا جاتا۔بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انسانی حقوق کی تنظیم کے عہدیدار نے کہا کہ شہدائ کی تکفین وتدفین کے حوالے سے حکومت، فلاحی اداروں، وزارت داخلہ اور مکہ مکرمہ سیکرٹریٹ کی مساعی قابل تعریف ہیں۔ حکومت پورے احتیاط اور میتوں کو احترام کے ساتھ ان کی تمام آخری رسومات کی ادائی کے بعد سپرد خاک کرنے کا انتظام وانصرام کررہی ہے۔انسانی حقوق کی ٹیم نے بتایا کہ تمام میتوں کو اجتماعی قبروں میں نہیں ڈالا جا رہا ہے بلکہ ہر شہید کو ایک الگ قبر میں رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ افواہیں قطعی بے بنیاد ہیں کہ منیٰ حادثے کے شہیدوں کے اجتماعی قبریں کھودی جا رہی ہیں۔ کسی بھی شہید کی تدفین سے قبل اس کا “ڈی این اے” کرایا جاتا ہے۔ تصاویر لی جاتی ہیں اور فنگر پرنٹ حاصل کیے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی وقت حسب ضرورت اس کے بارے میں معلومات مہیا کی جاسکیں۔