اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں ملک بھر میں ممنوعہ اسلحے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ممنوعہ اسلحہ لائسنس رکھنے کی کیٹیگری میں میری اجازت کے بغیر میرا نام بھی شامل کیا گیا، میرے لیے قانون میں خصوصی رعایت ملنا باعثِ شرم ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا۔
ریمارکس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اس معاملے پر عدالتی معاون مقرر کریں، ممنوعہ اسلحہ لائسنس رکھنے کی کیٹیگری میں میری اجازت کے بغیر میرا نام بھی شامل کیا گیا، میرے لیے قانون میں خصوصی رعایت ملنا باعثِ شرم ہے، میں نے اس معاملے پر ایک خط بھی لکھا تھا جس کا جواب نہیں دیا گیا، کلاشنکوف کوئی کھلونا یا کنگھی نہیں ہوتی، پبلک سرونٹ کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے، اسکولوں میں جائیں تو وہاں سیکیورٹی گارڈز اسلحہ لیے کھڑے ہوتے ہیں، غریب کے بچوں کے اسکولوں کے باہر تو گارڈز نہیں ہوتے، اسلحہ اٹھائے شخص کے بارے میں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ دہشت گرد ہے یا نہیں، شام کو اسلام آباد میں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کے ارکان کو بھی اجازت ہے کہ وہ اپنی ٹیبل پر اسلحہ رکھ کر بیٹھیں؟جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ شادی کی تقریبات میں اسلحے کی نمائش کی جاتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ امید ہے نئی حکومت اس معاملے پر کواقدامات اٹھائے گی، کوئی بھی ملک کے عوام کا نہیں سوچتا، سوشل میڈیا پر اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز موجود ہیں، اسلحہ لیے بڑی مشہور شخصیات کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز موجود ہیں، ہم کسی کا نام لے کر اسے شرمندہ نہیں کرنا چاہتے، ہم نے اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے، آئی جی بھی پولیس کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا ہے، کب تک قانون کے ساتھ مذاق ہوتا رہے گا؟ جب بم پھٹ رہے ہوں تو دیواریں اونچی کر دی جاتی ہیں۔