اسلام آباد (این این آئی) وزارت خزانہ کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس کے ساتھ ریڈیو فیس بھی شامل ہوگی، سمری تیار ہے ،35 روپے پی ٹی وی اور 15 روپے ریڈیو فیس عائد ہوگی،اداروں کی نجکاری کا معاملہ پالیسی سے متعلق ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پر غذائی اشیاء کی سبسڈی کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جمعرات کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں وزارت خزانہ حکام نے انکشاف کیا کہ بجلی کے بلوں میں ٹی وی فیس کے ساتھ ریڈیو فیس بھی شامل ہوگی، بجلی کے بلوں میں 50 روپے ٹی وی اور ریڈیو فیس عائد ہوگی۔
وزارت خزانہ حکام نے کہاکہ وزارت اطلاعات نے اس حوالے سے سمری تیار کرلی ہے، 35 روپے پی ٹی وی اور 15 روپے ریڈیو فیس عائد ہوگی۔وزارت خزانہ حکام کے مطابق سینیٹ کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی جس پر کام کیا گیا ہے، ان میں سے نقصان میں جانے والوں اداروں کی نجکاری کی سفارش تھی۔وزارت خزانہ حکام نے کہاکہ اداروں کی نجکاری کا معاملہ پالیسی سے متعلق ہے، وزارت خزانہ کو خزانہ کمیٹی کی 55 سفارشات موصول ہوئیں تھیں۔چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ ایف بی آر کو فنانس بل کے حوالے سے 97 سفارشات موصول ہوئیں۔
ایف بی آر نے سینیٹ کی 77 سفارشات کو فنانس بل کا حصہ بنایا۔ چیئر مین ایف بی آر نے کہاکہ سینیٹ کی 15 سفارشات پر جزوی طور پر عمل کیا، سینیٹ کی چھ سفارشات کو مسترد کیا گیا،سینیٹ کی سفارشات پر عملدرآمد کی شرح 80 فیصد ہے۔ حکام وزارت خزانہ نے کہاکہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن پر غذائی اشیاء کی سبسڈی کیلئے 35 ارب روپے رکھے گئے ہیں، اس میں سے 5 ارب روپے وزیر اعظم کے رمضان ریلیف پیکیج کیلئے مختص ہیں۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہاکہ آٹے کیلئے کتنی رقم رکھی گئی ہے ،اس کا جواب یوٹیلیٹی اسٹورز والے دیں گے۔ حکام وزارت خزانہ نے کہاکہ لیب ٹاپ اسکیم کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں،
آئی ٹی کمپنیوں کو ایکسپورٹ آمدن کا 25 فیصد باہر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔چیئر مین ایف بی آر نے کہاکہ تقریباً ڈھائی ہزار اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے، برانڈڈ گارمنٹس پر 15 فیصد جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہاکہ بونس شیئر پر انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ حکام ایف بی آر کے مطابق ایسوسی ایٹ کمپنیوں کی ٹرانسفر پرائسنگ کا پہلے آڈٹ ہوتا ہے، اس کی تحقیقات کمشنر کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ کامل علی آغانے کہاکہ یہ ادارے کا کام ہے کہ وہ قوانین بنائے تاہم پارلیمنٹ ان قوانین پر غور کر سکتی۔