اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

امریکی رکن کانگریس کی شکیل آفریدی کے بدلے عافیہ صدیقی کی رہائی کی تجویز

datetime 18  جولائی  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

واشنگٹن (این این آئی)امریکی قانون ساز کی طرف سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے شکیل آفریدی کو نکالنے کی تجویز بھی سامنے آگئی ۔میڈیارپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو پاکستانی جیل سے نکالنے کی تجویز رواں ہفتے کے شروع میں جنوبی اور وسطی ایشیائی خطے کے لیے 2024 کے بجٹ پر ایوان کی خارجہ امور کی کمیٹی کی سماعت کے دوران سامنے آئی جب امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین نے محکمہ خارجہ کی عہدیدار سے مکالمہ کیا۔واضح رہے کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام ہے کہ انہوں نے 2011 میں اسامہ بن لادن کی جاسوسی کے لیے امریکا کی معاونت کی تھی اسی سال ان کو 33 برس کی سزا سنائی گئی تھی۔

درین اثنا عافیہ صدیقی افغانستان میں حراست کے دوران امریکی فوجیوں پر فائرنگ کرنے کے جرم میں 2010 میں مین ہٹن کی ایک عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا کاٹ رہی ہیں۔امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین 26 جولائی کو پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر سماعت کریں گے، انہوں نے پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری آف اسٹیٹ الزبتھ ہورسٹ سے یہ پوچھا کہ کیا وہ یا محکمے سے کوئی بھی میٹنگ میں شرکت کریں گے۔

اس پر پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ الزبتھ ہورسٹ نے جواب دیا کہ بالکل پاکستان میں جو کچھ کر رہے ہیں اس کے بارے میں بات کرنے میں ہمیں خوشی ہوگی۔بعد ازاں بریڈ شرمین نے بتایا کہ کس طرح امریکی کمانڈوز نے 2011 میں القاعدہ کے سربراہ کو ہلاک کیا تھا۔بریڈ شرمین نے کہا کہ ہم اس بات کو بھول گئے کہ اسامہ بن لادن کو لانا کتنا اہم تھا، یہی وہ شخص تھا جس نے امریکی سرزمین ہر ہزاروں امریکیوں کو قتل کیا، اگر ہم اسے حاصل نہ کرتے تو ہماری ساکھ کیا ہوتی، اس نے کتنے دہشت گردی کے حملوں کی پشت پناہی کی اور کس طرح حملوں کی منصوبہ بندی کی۔

بعد ازاں بریڈ شرمین نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا ذکر کیا جن کو انہوں نے اسامہ بن لادن کو ختم کرنے والی 23 رکنی امریکی ٹیم کا 24واں رکن قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ کوئی آدمی اس وقت تک پیچھے نہیں رہے گا جب تک کہ آپ کو یہ احساس نہ ہو کہ 24واں شخص ڈاکٹر شکیل آفریدی نامی ایک پاکستانی بھی تھا جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دنیا کے بدترین دہشت گرد کو پکڑنے میں ہماری مدد کی تھی۔انہوںنے کہاکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی جیل میں قید ہے، ان کا امریکی خاندان یا امریکی مداح نہیں جو انہیں جیل سے نکالنے کے لیے محکمہ خارجہ پر دباؤ ڈالیں۔

بریڈ شرمین نے کہا کہ کیا ہم شکیل آفریدی کو نکالنے کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہیں اور کیا ہم انہیں نکالنے کے لیے ناخوشگوار قدم اٹھانے کو تیار ہیں؟پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ الزبتھ ہورسٹ نے جواب دیا کہ یقینا جس طرح آپ کو معلوم ہے کہ ہم ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں فکرمند ہیں، وہ بے گناہ ہیں اور ہم انہیں جیل سے نکالنا چاہیں گے۔قانون ساز نے کہا کہ کیا ہم عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو واپس لا سکتے ہیں؟الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ میں فی الحال اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی تاہم میں یہ وعدہ کرتی ہوں کہ اس پر غور کریں گے اور دیکھا جائے گا کہ شکیل آفریدی کو واپس لانے کے لیے کون سے تخلیقی حل تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

الزبتھ ہورسٹ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بریڈ شرمین نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ عافیہ صدیقی کے بدلے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو لانے کی مخالف ہیں۔پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ مجھے اس کے قانونی اثرات کو دیکھنا پڑے گا۔بریڈ شرمین نے نشاندہی کی کہ ملکی صدر جس کو بھی چاہیں رہا کر سکتے ہیں۔الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ یہ اس طرح کی بات ہے کہ میں محکمہ انصاف میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں تاہم میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں کہ ہمیں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو باہر نکالنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔بریڈ شرمین نے کہا کہ امریکا نے ماضی میں دیگر آپشنز پر کوشش کی ہے لیکن کوئی بھی کام نہیں آیا، لہٰذا عافیہ صدیقی کے بدلے ان کو باہر نکالنا ہی واحد راستہ ہے۔

سماعت کے دوران تمام قانون سازوں نے پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل پر تبادلہ خیال کیا جہاں الزبتھ ہورسٹ اور ڈاکٹر مائیکل شیفر سے پوچھا گیا کہ ان مسائل کو حل کرنے میں مدد کے لیے جو بائیڈن کی انتظامیہ کیا کر رہی ہے۔الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ پاکستان کی جمہوریت کی سالمیت اس کمیٹی میں شامل افراد کے لیے ایک اہم تشویش ہے، ہمارا پختہ یقین ہے کہ ایک خوشحال، جمہوری اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والا پاکستان امریکی مفادات کے لیے اہم ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم پاکستان کی آزاد سول سوسائٹی کی حمایت، اصلاحات، نگرانی اور احتساب کے لیے ان کی کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی غیر ملکی امداد کا استعمال کرتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے کہا کہ پاکستان کی امریکی امداد سے ان معاملات پر معاونت کی گئی جہاں ہم پاکستان کے ساتھ متعدد مسائل بشمول دہشت گردی کا مقابلہ کرنے، صحت کی فراہمی اور موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے نتیجہ خیز تعاون کر سکتے ہیں۔

گزشتہ برس تباہ کن سیلاب میں امریکا کی طرف سے پاکستان کی معاونت کرنے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آگے بڑھتے ہوئے، ہمارے وسائل کی توجہ موسمیاتی اسمارٹ زراعت، صاف توانائی اور پانی کے انتظام پر مرکوز ہے۔کمیٹی کے چیئر کانگریس جو ولسن نے کہا کہ اراکین پاکستان کے بارے میں اس لیے فکرمند ہیں کیونکہ وہ امریکا کا طویل مدتی شراکت دار رہا ہے۔کانگریس کے رکن ڈین فلپس نے نشاندہی کی کہ اس وقت پاکستان متعدد بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تاریخ کے بدترین معاشی بحران، سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے اور پاکستانی طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں نے ملک کو برے طریقے سے کمزور کر دیا ہے۔

انہوںنے کہاکہ جمہوریت کا مستقبل یقینی بنانا اور پاکستان میں طویل مدتی استحکام لانا ہمارے قومی مفادات کا حصہ ہیں اور میں جاننے کی توقع کرتا ہوں کہ موجودہ درپیش مسائل میں جو بائیڈن کی انتظامیہ پاکستان کے لوگوں کی کس طرح مدد کر رہی ہے۔کانگریس کی خاتون رکن ینگ کم نے کہا کہ چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت چین نے گوادر میں ایک بڑی بندرگاہ تعمیر کی ہے، جس میں دہری استعمال، ملٹری ایئربیس اور قریبی جیوانی میں بحری سہولت موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کی آڑ میں چین اپنے جنوبی ایشیائی ہمسایوں کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کو کمزور کر رہا ہے۔نمائندہ امی بیرا نے کہا کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز نے جنوبی ایشیا میں چین کے معاشی جبر کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کے متبادل فراہم کرنے کے لیے مضبوط فنڈنگ کی تجویز دی۔کانگریس مین اینڈی بار نے کہا کہ چین، پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جو کہ پہلے ہی 30 ارب ڈالر کا مقروض ہے اور چین کو قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہے، تو کیا ہم پاکستان کی مدد کرنے میں شریک ہیں؟

اس پر الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ بالکل، امریکی ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) پاکستان میں بہت دلچسپی رکھتا ہے اور اس کے پاس پاکستان کے لیے ونڈ فارمز کا ایک پروجیکٹ ہے، جو کہ فنانسنگ کا متبادل طریقہ ہے۔سی پیک پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہی وہ چیز تھی جس کے بارے میں امریکا نے پاکستان کو کافی وقت سے خبردار کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے کہا تھا کہ ‘خریدار، خبردار’، اور سی پیک پر متعدد برس دینے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی خود ہی اس پر اپنا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ آیا یہ ‘عظیم سرمایہ کاری ہے۔



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…