کراچی(نیوز ڈیسک) حکومت کی جانب سے عدم تحفظ، ریفنڈز کی عدم ادائیگی اور زائد المیعاد درآمدہ خشک دودھ کی وسیع پیمانے پر ڈمپنگ ملک میں کارپوریٹ ڈیری فارمنگ انڈسٹری کی نمومیں رکاوٹ بن گئی ہے، دودھ کی50 ارب لیٹرسالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کا تیسرا سرفہرست ملک ہونے اورمعیاری پروڈکٹ کی صلاحیت رکھنے کے باوجود پاکستان تاحال ڈیری مصنوعات کے برآمدکنندہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکا ہے۔یہ بات گھارو میں قائم میگا کارپوریٹ ڈیری فارم ڈیری لینڈکے ڈائریکٹر اور کارپوریٹ ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے بورڈ ممبر ایم ندیم منوں نے ہفتے کوفارم کا دورہ کرنے والے صحافیوں کوپریزنٹیشن دیتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر کارپوریٹ ڈیری فارمز ایسوسی ایشن (سی ڈی ایف اے) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہارون ایم کے لودھی بھی موجود تھے۔ ندیم منوں نے بتایا کہ کارپوریٹ ڈیری فارمنگ میں منافع بخش سرمایہ کاری کے دستیاب مواقع کے باوجود سال 2013 کے بعد سے ملک میں کوئی نیا کارپوریٹ ڈیر ی فارم قائم نہیں ہو سکا ہے حالانکہ سال 2007 تا 2012کے دوران پاکستان میںکارپوریٹ ڈیری سیکٹر میں 20 ارب 70کروڑ روپے کی سرمایہ کاری سے 14 لارج اسکیل اور مثالی کارپوریٹ ڈیری فارمزبتدریج قائم کیے گئے۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور تعجب خیزپالیسیوں نے اس شعبے میں نئی سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمندوں اورجاری فارمزمیں توسیع کرنے والوں کومایوسی سے دوچار کردیا جس کے سبب دودھ کی پیداوار میں دنیا کاتیسرا بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان اس شعبے سے مکمل استفادہ نہیں کرپارہا ہے۔پاکستان میں 6 کروڑ بھینس اور گائے ہیں اور 8.5 ملین خاندان ڈیری فارمنگ بزنس سے وابستہ ہیں، ملک میں دودھ کی مجموعی پیداوار کا 50 فیصد مارکیٹ میں آتا ہے جس کا صرف 3 تا4 فیصد دودھ کی پروسیسنگ ہوتی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کار بھی اس شعبے میں مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبے شروع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن کارپوریٹ ڈیری فارمنگ انڈسٹری کو مطلوبہ ادویہ اور ویکسینز درآمد کرنے کی اجازت نہ دینے، 500 ملین روپے کے سیلزٹیکس ریفنڈز کی عدم ادائیگی سمیت دیگر بنیادی نوعیت کے مسائل کی وجہ سے نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں نے اس شعبے میں سرمایہ لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں میں ٹھہراو¿ آگیا ہے۔ ندیم منوں نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میںبھارت اور ایران سے درآمدہ خشک دودھ کی وسیع پیمانے پر ڈمپنگ ہو رہی ہے، بھارت نے خشک دودھ کی درآمد پر اگرچہ 68 فیصد ڈیوٹی عائدکرکے اپنی ڈیری انڈسٹری کو تحفظ فراہم کردیا ہے لیکن پاکستان نے مقامی ڈیری انڈسٹری کی 100 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز کے برعکس خشک دودھ پر ڈیوٹی کی شرح گھٹا کر 20 فیصد کر ڈالی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق خشک دودھ کی میعاد صرف ایک سال ہوتی ہے لیکن پاکستان میں زائد المیعاد خشک دودھ نہ صرف امپورٹ ہورہا ہے بلکہ مارکیٹوں میں زائدالمیعاد خشک دودھ کی کھلے عام فروخت جاری ہے۔ اسی طرح تازہ دودھ کے فروخت کنندگان دودھ کو زائدالمیعاد بنانے کی غرض سے ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کا بھی استعمال کررہے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ درآمدہ خشک دودھ کا ایک بڑا حصہ تازہ دودھ کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ خشک دودھ تیار کرنے والی مقامی صنعتیں تباہی سے دوچار ہوگئی ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پالیسی یا ریگو لیٹری فریم ورک نہیں ہے، ڈیری سیکٹراگرچہ ایک زیرو ریٹیڈ سیکٹر ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ3 سال سے کارپوریٹ ڈیری فارمرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز ادا نہیں کیے گئے جبکہ ملک پروسیسرز کے بھی8 ہزار ملین روپے مالیت کے سیلز ٹیکس ریفنڈز التوا کا شکار ہیں۔