قاہرہ(این این آئی)انتہائی حیرانی کے ساتھ ساٹھ سالہ عبدالفتاح سلامہ کو یہ خبر ملی کہ مصر کے متعدد بینکوں نے حج اور عمرہ کے مناسک ادا کرنے کے خواہشمندوں کو قرض دینے کی پیشکش کی ہے۔ تاہم عبدالفتاح سلامہ کا ماننا ہے کہ قرض پر بیت اللہ کی زیارت کا خواب پورا نہیں ہوگا کیوںکہ قرض کی اس رقم میں سود شامل ہے۔ میں جانا نہیں چاہتا اور میں مشکوک پیسوں سیحج کا فریضہ ادا نہیں کرسکتا۔
میڈیارپورٹس کے مطابق چند لفظوں میں بزرگ نے مصریوں کی حالیہ دنوں کے دوران پیش آنے والے تنازعہ کی کیفیت کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔ اس معاملے پر اس وقت مصرمیں عوامی اور مذہبی حلقوں میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ مذہبی اسکالرز کی طرف سے قرض پر حج کی ممانعت بیان کرتے ہیں تاہم بعض نے اس کے جواز میں بھی دلائل دیے۔ جب کہ معاشی تجزیہ کاروں کے پاس صرف اعدادو شمار کا گورکھ دھندہ ہی ہوتا ہے۔ مصری حکومت کے عہدیداروں کا خیال ہے کہ مہنگائی کے دور میں قرض پر حج یا عمرہ کے لیے قرض معاشی دبا کو کم کرسکتا ہے۔مصر کے متعدد بینکوں خاص طور پر مصر، دی یونائیٹڈ بینک اور فیصل اسلامک بینک آف مصر نے حج یا عمرہ کے مناسک ادا کرنے کے خواہشمندوں کو 17 فیصد سالانہ کی شرح سود پر بینک قرض کی پیشکش کی۔ انہیں یہ رقم 10 سال کی مدت میں واپس کرنا ہوگی۔تینوں بینکوں کے اعلان نے مصری معاشرے میں تنازع کو جنم دیا۔ یہ تنازع سوشل میڈیا پر مزید بحث کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
اگرچہ بعض لوگوں نے بنکوں کی اس آفر کا خیر مقدم کیا ہے مگر زیادہ تر لوگ اس کو حج اور عمرہ کی مقدس عبادت کی روح کے منافی سمجھتے ہیں۔43 سالہ محمد فاروق ایک سرکاری ملازم ہیں مگران کا کہنا ہے کہ بنکوں سے سود پر قرض لے کرحج یا عمرہ کرنا خلاف منطق ہے۔
یہ عبادت ہے اور عبادت کے لیے ہمیں اپنی حلال کی کمائی میں سے پیسہ خرچ کرنا چاہیے۔ بنکوں سیقرض لے کرحج کرنا مناسب نہیں۔باسٹھ سالہ عبدالفتاح سلامہ ایک ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حج کے لیے قرضوں کا اعلان کرنا ایک غیر معقول مظہر ہے جس کا مصری اس وقت تجربہ کر رہے ہیں۔ صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں۔