اسلام آباد(نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا،کیا انصاف کے رسائی کے حق کو ختم کیا جاسکتا ہے؟یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟کیا مناسب ہوتا نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔نجی ٹی وی چینل کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ بنچ میں شامل تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اسلام آبادہائیکورٹ کس کیس میں پیش ہوئے تھے ؟وکیل حامد خان نے کہاکہ عمران خان نیب کیس میں ضمانت کروانے کیلئے ہائیکورٹ آئے تھے،عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے کہ رینجرز نے ہلہ بول دیا، دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیاگیا،بائیو میٹرک کروانا عدالتی عمل کا حصہ ہے،عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور گرفتاری پر تشددہوئی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا،عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقرر نہیں ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا بائیومیٹرک سے پہلے درخواست ہو جاتی ہے،حامد نے کہا کہ بائیومیٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہو سکتی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا،کیا انصاف کے رسائی کے حق کو ختم کیا جاسکتا ہے؟یہی سوال ہے کہ کسی کو انصاف کے حق سے محروم کیا جا سکتا ہے؟کیا مناسب ہوتا نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔