بدھ‬‮ ، 06 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ہائیکورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق قرار دیدی

datetime 9  مئی‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)اسلا م آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے رینجرز کی مدد سے احاطہ عدالت سے گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیدی جبکہ عدالت نے عمران خان کو عدالتی احاطے سے گرفتار کرنے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے

سیکرٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردئیے۔منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے نوٹس کے بعد سماعت چیف جسٹس عامر فاروق نے کی ۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے حکم دیا کہ سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، ایڈیشنل اٹارنی جنرل 15 منٹ میں پیش ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ آپ نے کیا کیا ہے؟ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ہے، میں تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہوں، اگر 15 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو وزیراعظم کو طلب کرلوں گا، پیش ہو کر بتائیں کہ کیوں کیا، کس مقدمے میں کیا؟وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہونے سے قبل آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔آئی جی اسلام آباد، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، سلمان صفدر، نعیم پنجوتھا بھی عدالت میں موجود رہے۔چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت دوبارہ شروع ہوگئی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی صاحب آگئے ہیں، سیکرٹری داخلہ راستے میں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ میں نے 15 منٹ کا کہا تھا، اب 45 منٹ سے زائد گزر چکے ہیں۔چیف جسٹس عامر فاروق نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جان بوجھ کر مناسب وقت دیا تھا، ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ وزیر کو طلب کروں؟آئی جی اسلام آباد نے بتایا کہ مجھے میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان نے بتایا کہ عمران خان کو نیب نے کرپٹ ہریکٹس کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔آئی جی اسلام آباد نے نیب وارنٹ کی کاپی عدالت میں پیش کردی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جتنا میں نے دیکھا، اسٹاف نے بتایا

نیب نے تو گرفتار نہیں کیا، اگر تو قانون کے مطابق نہیں تو میں آرڈر جاری کروں گا۔عمران خان کے وکیل بیرسٹر گوہر روسٹرم پر آئے اور عدالت کو بتایا کہ ان کی کوشش تھی کہ بائیو میٹرک کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے عمران خان کو گرفتار کریں، رینجرز نے شیشے توڑے، ہم پر پیپر اسپرے کیے۔بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ انہوں نے راڈ خان صاحب کے سر پر مارا، انہوں نے دونوں ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے

میں اس حوالے سے بیان حلفی دینے کیلئے تیار ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، عمران خان کی زخمی ٹانگ پر بھی تشدد کیا گیا۔وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ انہوں نے عدالتی آزادی، بنیادی حقوق کی پامالی کی، انصاف تک رسائی ہر کسی کا بنیادی حق ہے، آج کا واقعہ عدالتی آزادی پر براہ راست حملہ ہے، قانون کہتا ہے انکوائری کے دوران نیب گرفتار نہیں کر سکتا

نیب تحقیقات کے دوران بھی مخصوص حالات میں گرفتار کرسکتا ہے، عمران خان بائیو میٹرک کرانے کے پراسس میں تھے۔وکیل علی بخاری نے بتایا کہ میں بائیو میٹرک والے کمرے میں موجود تھا، خان صاحب کی بائیو میٹرک ہورہی تھی، 5 پولیس والے بھی موجود تھے، رینجرز نے کہا دروازہ کھولو، پولیس نے انکار کردیا کہ نہیں کھولتے، رینجرز شیشے توڑ کر داخل ہوئے

خوب توڑ پھوڑ کی۔علی بخاری نے کہا کہ رینجرز نے جو بھی کمرے میں موجود تھا سب ہر تشدد کیا، پولیس والوں کی وردیاں دیکھ لیں بلا کر۔وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پہلی درخواست یہ ہے کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ سنے، آپ کی عدالت پر حملہ ہوا، استدعا ہے کہ عدالت اپنے وقار کو بحال کرے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، میرے صبر کا امتحان مت لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ نیب اس طریقے سے بھی گرفتار کرتی ہے؟

کیا یہ عدالتی آزادی پر حملہ نہیں؟ کیا یہ گرفتاری غیر قانونی ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے سامنے ہے، وکلا کے سر پھٹے ہوئے ہیں، ان کے اوپر حملہ، اس ادارے کے اوپر حملہ، میرے اوپر حملہ، کیا میں ایسے ہی جانے دوں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وارنٹ کی ضرور تکمیل ہو گئی ہو گی تاہم یہ سب اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں ہوا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل دوگل صاحب نے کہا ہمارا تعلق نہیں

ایجنسی آپ کی استعمال ہوئی، تعلق بن جاتا ہے۔خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ اسی کیس کی درخواستیں دائر کرنے بیٹھا ہوں، اسی کیس میں پکڑ کر لے جائیں یہ۔وکیل نعیم پنجوتھا نے عمران خان کو اسی وقت عدالت میں پیش کرنے کے احکامات دینے کی استدعا کردی، خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ میں 45 سال سے وکالت کررہا ہوں، کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ حملہ کرکے گرفتار کیا ہو۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مقف اپنایا کہ کیا پارکنگ، بار روم کو کورٹ سمجھا جائے گا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے اس بیان پر کمرہ عدالت میں شیم شیم کے نعرے لگائے گئے۔

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ جو ہوا اس کا تقاضا ہے کہ اس تمام عمل کو ریورس کیا جائے، درخواست یہ ہے کہ ابھی یہ ساری بات پتہ چلی ہے، مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ واقعہ کہاں ہوا، اس کمرے میں ہوا یا اس کمرے میں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وکلا نے سب تو بتا دیا ہے اور کیا چاہیے؟آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں معاملے کو دیکھ سکوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے سامنے میرے بھائی میرے ساتھ اس حالت میں کھڑے ہیں،

کون ذمہ دار ہے؟ جو توڑ پھوڑ ہوئی، شیشے ٹوٹے، عمارتیں اہم نہیں، یہ وقار نہیں اہم ہے، بات سسٹم کی ہے، سسٹم کے بغیر کیسے چلیں گے؟ ان معاملات پر بتا دیں، ورنہ میں آرڈر کر دیتا ہوں۔خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہم آپ کے سامنے پیش ہوتے ہیں، آج نہیں تو کل گرفتار ہوجائیں گے، مگر ڈیو پروسیس کے تحت، یہ تو کوئی ڈیو پروسیس نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ قانون کی حکمرانی کا یہ معاملہ ہے

اس کا شخصیات سے لینا دینا نہیں۔عدالت نے ڈی جی نیب راولپنڈی، پراسیکیوٹر جنرل نیب کو آدھے گھنٹے میں طلب کرلیا اور سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔بعد ازاں ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان بیگ، پراسیکیوٹر جنرل نیب، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچ گئے جس کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں سماعت دوبارہ شروع ہوئی۔

چیف جسٹس نے ڈی جی نیب سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب نے وارنٹ کی کاپی دکھائی تھی کیا وہ جاری کیا گیا ہے؟ سردار مظفر نے کہا کہ بالکل وارنٹ جاری ہوا ہے، یکم مئی کا وارنٹ ہے، ہم نے وزارت داخلہ کو وارنٹ کی تعمیل کیلئے درخواست کی تھی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وارنٹ کی تعمیل کے دوران نیب سے کوئی موجود تھا؟ سردار مظفر نے کہا کہ تفتیشی افسر بیلا روڈ پر پہنچا تھا

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وکلا پر تشدد کیا گیا، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، میرا کنسرن عدالت کی عزت و تکریم ہے، یہ جو بھی ہوا ہے عدالت کے اندر سے ہی ہوا یے۔چیف جسٹس نے کہا کہ توڑ پھوڑ بعد کا معاملہ ہے، وکلا اور عملے پر تشدد کا معاملہ پہلے ہے، وارنٹ آپ نے ایشو کیے، مانتے ہیں، عام طور پر وارنٹ کی تعمیل کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی وارنٹ کی تعمیل سے متعلق رولز پڑھ رہے ہیں

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آج جو ہوا ہے کیا وہ قانونی تھا یا غیر قانونی، میرا بس یہ کنسرن ہے، کیا وارنٹ کی تعمیل قانونی تھی یا غیر قانونی، واحد معاملہ یہی ہے، وکلا اور عملے پر تشدد پر میں بعد میں آتا ہوں، کیا عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا غیر قانونی؟ مانتا ہوں کہ وارنٹ موجود تھے، لیکن اس کی تعمیل کے طریقہ کار سے غرض ہے۔وکلا نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا احترام ہر ادارے، ہر فرد پر لازم ہے

آج ہم نے دیکھا کہ انہوں نے وکلا پر اسپرے کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کو روکنا ہوگا، پہلے میں گرفتاری سے متعلق معاملہ دیکھنا ہے، تمام وکلا کی شکایات بجا ہیں لیکن پہلے گرفتاری کے معاملے کو دیکھنا ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ اپریل کو اخبار نے خبر چھاپی کہ نیب نے انکوائری انویسٹی گیشن میں تبدیل کردی ہے، نیب پر لازم ہے کہ وہ مجھے اس کی کاپی فراہم کرے

میں نے نیب کو خط لکھا کہ مجھے یہ اخبار سے پتہ چلا ہے، مہربانی کریں مجھے انکوائری کی کاپی فراہم کریں۔خواجہ حارث نے ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا، خواجہ حارث نے کہا کہ ریکارڈ سے بدنیتی صاف نظر آرہی ہے، چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ وارنٹ صرف انویسٹیگیشن میں منتقل ہونے کے بعد جاری کیا جاسکتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ بالکل میرا کیس ہی یہی ہے کہ انویسٹیگیشن میں منتقل ہونے اور متعدد نوٹسز کے جواب نہ ملنے پر جاری ہوسکتا ہے، خواجہ صاحب یہ جو نیب قانون میں ترمیم ہے یہ اچھی ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ آپ نے فواد چوہدری یا کسی دوسرے کیخلاف تو وارنٹ جاری نہیں کر رکھے؟ بتا دیں، یہ نہ ہو کہ یہ یہاں سے باہر نکلیں اور آپ تعمیل کرادیں، میں وکیلوں میں سے ہوں اور وکیلوں میں ہی مجھے جانا ہے، مجھے عدالت کی عزت و تکریم اور میری کمیونٹی کو دیکھنا ہے۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی گرفتاری سے متعلق معاملے پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے مناسب آرڈر جاری کریں گے۔

بعد ازاں محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دے دی۔عدالت عالیہ نے اپنے مختصر حکم نامے میں عمران خان کو عدالتی احاطے سے گرفتار کرنے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کردیے۔عدالت نے حکم دیا ہے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ انکوائری کرکے 16 مئی تک رپورٹ جمع کرائیں۔



کالم



دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام


شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…