اسلام آباد(نیوز ڈیسک).11 ستمبر 2015ء کو نہایت ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جب مسجدالحرام کی توسیع کے دوران ایک کرین گِر پڑی۔ حادثہ طوفانی بارش اور آسمانی بجلی گرنے کے باعث پیش آیا جس کے نتیجے میں 107افراد جاں بحق اور 240سے زائد افراد زخمی ہوئے۔حادثے کے باعث خانہ کعبہ میں بھگدڑ مچ گئی جس کے نتیجے میں مزید افراد زخمی ہوئے تاہم اب تک اس کی مصدقہ اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں حج کیلئے جانے والے افراد شامل ہیں۔ کئی افراد نے اس حادثے کی موبائل کیمروں سے فلم بھی بنائی جن سے اس ہیبت ناک واقعے کی ہولناکی کا درست طور پر معلوم ہوتا ہے۔ کرین کا ایک حصہ نماز میں مشغول افراد پر جاگرا جس سے نمازی کچلے گئے اور کئی افراد نے موقع پر ہی دم توڑدیا جبکہ کچھ افراد اسپتال میں جاکر جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کی تکلیف کا احساس بنائی گئی فلموں اور تصاویر سے کیا جاسکتا ہے۔مکہ مکرمہ کے گورنر شہزادہ خالد الفیصل نے مسجد الحرام میں کرین کے افسوس ناک حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف کو پیش کردی۔ رپورٹ کے مطابق اس ناگہانی حادثے میں 107افراد جاں بحق اور 240زخمی ہوگئے تھے۔ زخمیوں میں 15 پاکستانی ،23 مصری،10 بھارتی، 25 ایرانی، 6 ملائیشیائی، 25 بنگلا دیشی، ایک الجزائری اور ایک افغان شامل تھے۔ حادثے کے بعد سعودی حکومت پر تنقید بھی سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ جب حج کا مہینہ آہی پہنچا تھا تو توسیعی کام روک دئیے جاتے تاکہ اس طرح کا حادثہ پیش نہ آتا۔ ماضی میں بھی دورانِ حج سنگین حادثات ہوتے رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان اپنی جانوں سے گئے۔ یاد رہے کہ ہر صاحبِ حیثیت مسلمان پراپنی زندگی میں ایک بار حج کی ادائیگی فرض ہے۔ حج کے مہینے میں مکہ میں 30 لاکھ کے لگ بھگ عازمین حجاج آتے ہیں۔ ہوائی سفر کی وجہ سے حاجیوں کا مکہ تک کا سفر بہت آسان ہو گیا ہے اور پوری دنیا سے لوگ فریضہ حج ادا کرنے آتے ہیں۔ نتیجتاً حج کے دوران حاجیوں کی تعداد مسلسل بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ شہری حکام کو لاکھوں عازمینِ حج کے لیے خوراک، رہائش، نکاسی آب اور ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے حادثات سے یکسر بچاﺅ ممکن نہیں۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران زیادہ تر حادثات ہوتے ہیں کیونکہ حجاج دو منزلہ پل سے گزرتے ہوئے یہ فرض سرانجام دیتے ہیں۔بعض اوقات بڑھتے ہوئے ہجوم جب ایک مناسک حج سے دوسرے کو سفر کرتے ہیں تو ان میں بھگدڑ مچ جاتی ہے۔ لوگ گھبرا جاتے ہیں اور کچلے جانے سے بچنے کی نیت سے لوگ بھاگنے لگتے ہیں اور سینکڑوں جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ رمی جمار کے دوران سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک ذیل میں دیے گئے ہیں:
بھگدڑ کے حادثات
2 جولائی 1990ءکو مکہ سے منیٰ اور میدانِ عرفات کی طرف جانے والی ایک سرنگ، جس سے لوگ پیدل سفر کرتے ہیں، اس میں بھگدڑ مچی اور 1,426 افراد جاں بحق ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق ملائیشیا، انڈونیشیا اور پاکستان سے تھا۔ 23 مئی 1994ئ کو رمی کے دوران مچنے والی بھگدڑ سے کم از کم 270 حاجی جاں بحق ہوئے۔
9 اپریل 1998ءکو جمرات کے پل پر ایک حادثے میں 118 افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہوئے۔ 5 مارچ 2001ءکو رمی کے دوران 35 حاجی کچل کر جاں بحق ہوئے۔ 11 فروری 2003ئ کو رمی کے دوران 14 افراد جاں بحق ہوئے۔ یکم فروری 2004ئ کو منیٰ میں رمی کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے 251 افراد جاں بحق اور 244 زخمی ہوئے۔
12 جنوری 2006ئ کو حج کے آخری دن رمی جمار کے دوران کم از کم 346 افراد کچل کر جاں بحق اور 289 زخمی ہوئے۔ یہ حادثہ دن 1 بجے کے بعد پیش آیا جب عازمینِ حج سے بھری ایک بس کے عازمینِ حج پل جمرات کے مشرقی راستے پر پہنچے تو کچھ افراد گر گئے اور یہ حادثہ شدت اختیار کر گیا۔
آتش زدگی کے واقعات
دسمبر 1975 میں گیس سلنڈر پھٹنے سے خیمہ بستی میں آگ لگ گئی اور 200 حاجی جاں بحق ہوئے۔ 5 اپریل 1997ءکو منیٰ میں 8ذوالحجہ کو لگنے والی آگ سے 343 حاجی جاں بحق اور 1500 زخمی ہوئے۔ یکم نومبر 2011ءکو دو میاں بیوی کوچ میں لگنے والی آگ سے جاں بحق ہوئے۔
مظاہرے اور تشدد کے واقعات
31 جولائی 1987 ءکو ایرانی مظاہرین اور سعودی فوج کے مابین جھڑپ سے 400 سے زائد حجاج جاں بحق جبکہ کئی ہزار زخمی ہوئے۔ 9جولائی 1989ءکو دو بم پھٹنے سے ایک حاجی جاں بحق اور 16 زخمی ہوئے۔
بیماریوں کے واقعات
مختلف ممالک سے آنےو الے عازمین حج کے آزادانہ میل ملاپ کے باعث غریب ممالک کے حجاج جن کے پاس صحت کی بہتر سہولتیں نہیں ہوتیں، عام بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات یہ بیماریاں وبائی حالت اختیار کر لیتی ہیں۔ ایسے حجاج اپنے گھروں کو واپسی پر بیماری ساتھ لے جاتے ہیں۔
1987ئ کے حج کے بعد گردن توڑ بخار نے اس وقت عالمی وبا کی شکل اختیار کر لی جب حجاج اس بیماری کو اپنے اپنے ممالک میں واپس لے گئے۔ اب یہ ویزہ کی لازمی شرط ہے کہ مخصوص بیماریوں کے خلاف ویکسین کرا لی جائے۔ 2010ء کی شرائط میں زرد بخار، پولیو اور انفلوئنزا کی ویکسین بھی لازمی قرار دی گئی ہیں۔
مرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم، کورونا وائرس)
2013ئ میں سعودی حکومت نے شدید بیمار اور بوڑھے افراد کو اس سال حج ملتوی کرنے کی درخواست کی اور مرس (مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈروم کورونا وائرس) بیماری کی وجہ سے حجاج کی کل تعداد میں بھی کمی کر دی۔ یکم نومبر 2013ئ کو ایک خاتون جب حج ادا کر کے واپس اسپین پہنچی تو اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگیں۔
قدیم وبائیں
1905ء میں مصر میں 6 حجاج کو جب الطور شہر کے قرنطینہ میں رکھا گیا تو ان میں ہیضے کی علامات پائی گئیں۔
الغزہ ہوٹل کا حادثہ
5 جنوری 2006ءکو مسجد الحرام کے پاس ایک کثیر منزلہ ہوٹل کی پختہ عمارت گر گئی۔ حادثے میں 76 افراد جاں بحق اور 64 زخمی ہوئے۔
دیگر حادثات
دسمبر 2006ء کے حج کی ابتداء سے پہلے 243 حجاج جاں بحق ہو گئے۔ سعودی حکومت کے مطابق اموات کی وجوہات میں دل کے امراض اور بوڑھے لوگوں کا گرمی اور سخت محنت برداشت نہ کر سکنا تھا۔ حج کے بعد نائجیرین حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے 33باشندے فشارِ خون، ذیابیطس اور دل کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور یہ ہلاکتیں کسی وبائی مرض سے نہیں ہوئیں۔
مصر کی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 10 ذوالحجہ کو 22 مصری بھی جاں بحق ہوئے جبکہ 50 فلپائنی شہری بھی جاں بحق ہوئے جن میں سے 4 بزرگ حجاج کو مکہ میں ہی دفن کیا گیا۔ پاکستان کے 130 حاجی جاں بحق ہوئے جن کی اکثریت بہت بوڑھی اور کمزور تھی جو نمونیا اور دل کے امراض سے جاں بحق ہوئے۔دسمبر 2006ء کے اوائل میں حجاج کو مدینہ سے مکہ لے جانے والی ایک کوچ کو حادثہ پیش آیا جس سے 3 برطانوی شہری جاں بحق اور 34 زخمی ہوئے۔ نومبر 2011ئ میں بیماریوں اور ٹریفک حادثات کے سبب 13 افغان جاں بحق اور درجن بھر زخمی ہوئے۔
حجاج کرام کے ساتھ کرین حادثہ پہلا واقعہ نہیں
16
ستمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں