لاہور (این این آئی)پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس زیر سماعت ہے،انتخاب سے متعلق جو پہلا بینچ بنا تھا وہ 9 ممبران پر مشتمل تھا،نو اراکین پر مشتمل بینچ تین ممبرانِ کا رہ گیا،
جج صاحبان کی علیحدگی کے بعد فیصلہ از خود نوٹس کے خلاف ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس صاحب بضد ہیں کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے،ایسی صورت حال میں سیاستدان، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کرے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار ادا کر رہا، دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق فریق کے کردار کے بعد ظاہر ہے،ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ انہوں نے کہاکہ چیف جسٹس صاحب ہو یا انکے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت عظمیٰ پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، انکی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گواراکیا ہے تاہم جس کو سپورٹ کر رہے اس سے دستبردار نہیں ہورہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور انکے دو رفقاء کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے اور خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ ہم کس کے ساتھ بات کرے، ایک مجرم کے ساتھ جس کو دھاندلی کے زریعے لایا گیا تھے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے پندرہ ملین مارچ کئے آزادی مارچ کئے اس وقت آپ کو احساس نہیں ہوا اپ نے از خود نوٹس کیو ں نہیں لیا؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ 25 جولائی کی دھاندلی کی دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے،آج بھی انکے خلاف آپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے۔ انہوں نے کہاکہ صوبوں میں انتخابات کروانا یا ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے،
کس طرح اپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے۔ انہوں نے کہاکہ از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ انہوں نے کہاکہ ہم اس بینچ پر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج کہا جارہا آئین کا تقاضا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کروائے جائے یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیو نہیں تھا جب یہ عدالت ایک امر پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کروانے کی اجازت دے رہا تھا۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، کچھ ماہ بعد نئی حلقہ بنایا، نئی ووٹر لسٹ اور نیا بننے والا ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔ انہوں نے کہاکہ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کیلئے سن سنتالیس سے پاکستان میں الیکشن ایک دن میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ احتیاط سے کام لیا جائے، فریق بن کر کردار نہ ادا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد رہنے دیا جائے، سپریم کورٹ کو غیر جانبدار رہنے دیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے نہ ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔