عثمان بزدار کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں200سے زائد ووٹ پڑیں گے اور یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے ،متحدہ اپوزیشن کا دعویٰ

28  مارچ‬‮  2022

لاہور( این این آئی) پنجاب اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں200سے زائد ووٹ پڑیں گے اور یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے ،پنجاب میں کتنی مدت کے لئے اور کس طرح کا سیٹ اپ آنا ہے اس کا فیصلہ قیادت نے کرنا ہے ،ہم سب ملک و قوم کے بڑے مقصد کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار مسلم لیگ (ن) کے مرکزی

رہنما رانا مشہوداحمد خان اور پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے ملک ندیم کامران ، سمیع اللہ خان ، میاں نصیر، رمضان صدیق بھٹی سمیت دیگر کے ہمراہ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کی ۔رانا مشہودنے کہا کہ مرکز میں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد سپیکر کا کردار پوری قوم نے دیکھ لیا ہے جو قابل مذمت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام کا مطالبہ تھا کہ کرپٹ اورنا اہل حکومت سے چھٹکارا دلایا جائے اور اسے دیکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) او رپیپلز پارٹی کی قیادت نے کئی دن پہلے اپنے ممبران پنجاب اسمبلی سے دستخط کرا لئے تھے۔ ہم نے وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اجلاس بلانے کے لئے بھی ریکوزیشن جمع کر ادی ہے ۔ پنجاب کی عوام کا فیصلہ ہے کہ عثمان بزدار کی صورت میں ایک نا لائق او رنا اہل اور کرپٹ حکومت کا گماشتہ جس نے کرپشن کے ریکارڈقائم کر دئیے وہ نہیں چاہیے ۔ آئین کے مطابق عدم اعتماد اور ریکوزیشن کیلئے جتنے لوگوں کے دستخط درکار ہیں اس سے کئی گنا زیادہ دستخطوں کے ساتھ پیشرفت کی گئی ہے ۔

جس دن عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو گی اس روز 200سے زیاد ہ ممبران عثمان بزدار کو فارغ کرنے کی حمایت کریں گے ، یہ ایک محتاط تعداد بتا رہے ہیں جو اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے ۔ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ پاکستان سے کرپٹ ٹولے کوختم کرنا ہے ، عوام پر جو مہنگائی کا بوجھ لادھا گیا ہے اس بوجھ کو ختم کرنا ہے ۔

پنجاب کے اندر شہباز شریف نے گڈ گورننس کے جوریکارڈ قائم کئے اور اس کے مقابلے میں آج جو کارکردگی ہے وہ بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ،کس طرح میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں ،کرپشن کے بازار گرم کئے گئے لیکن ان تمام کا احتساب ہوگا ، پارٹی کی مشاورت ہوئی ہے ان کا ایک ایک سکینڈل سامنے لائیں گے اور اداروں میں لے کر جائیں گے او ران کا کڑ ااحتساب ہوگا۔

یہ جھوٹ بولنے والے لوگ جنہوںنے پنجاب میں پونے چار سال سوائے جھوٹ بولنے کے کچھ نہیں ،کوئی ترقیاتی کام نہیں کرایا ،عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا ،یہ مافیاز کی سر پرستی کرتے رہے لیکن اب ان کے خاتمے کاوقت آ گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سپیکر صاحب چودہ روز میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں ،یہ اجلاس اپریل کے مہینے میں ہوگا ،وفاق میں وزیر اعظم اور پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی عدم اعتماد آئے گی ۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ تاریخی مہنگائی تاریخی کرپشن کے خلاف ہم پنجاب کی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ، ہم ان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں او ران کی ترجمانی کرتے ہوئے لانگ مارچ کے قافلے کی پذیرائی ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عثمان بزدار وار عمران کا جانا ٹھہر چکا ہے او ر ہم نے پنجاب میں محتاط200ووٹ بتائے ہیں جو اس سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قیادت نے جو بھی فیصلہ کیا ہے وہ ملک کے مفادمیں کیا ہے ، اگر نئے اتحادوں کی سوچ ہے تو حکمرانوں رویہ اور کردار دیکھ کر یہ سوچ آئی ہے ۔ پارٹیوں کے بڑے میں مشاورت سے فیصلے ہو چکے ہیں آئندہ چند روز میں ان فیصلے پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظر آئے گا ۔وزیر اعلیٰ کے فیصلے کیلئے اعلیٰ قیادت سر جوڑ کر بیٹھی ہے ،کچھ فیصلے ہو چکے ہیں جو وقت آنے پر عوام کے سامنے آئیں گے ۔

آئندہ آنے والے دنوں میں پہلامرحلہ مکمل ہوگا تو اور مقصد یہ عوام کو ریلیف دینا ہے ۔پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضیٰ نے کہا کہ عدم اعتماد کیلئے ہمارے سر پر کسی کا ہاتھ نہیں ہے یہ پاکستان کی تاریخ کی پہلا عدم اعتماد ہے جس میں عوامی تائید حاصل ہے ، بلاول بھٹو کی قیادت میں لانگ مارچ کراچی سے شروع ہوا ۔

مولانا فضل الرحمان نے عوامی تائید کو حاصل کرنے کے لئے لانگ مارچ شروع کیا اور اس کے بعد مسلم لیگ (ن) عوامی تائید کے لئے عوامی سفر پر نکلی، یہ واحد عدم اعتماد ہے جسے عوامی تائید کے ساتھ اپوزیشن لائی ہے اور یہ بھرپور طریقے سے کامیاب ہو گی او ر ایک تاریخی شکست فاشسٹ حکومت اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو ہو گی ۔

انہوں نے کہا کہ حکمرانوںنے ملک کو معاشی پر دیوالیہ کیا ہے ،عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا ہے ،اخلاقی طو رپر اقدارکو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ یہ معافی کے قابل نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جس طرح جلسوں میں بول رہے ہیں وہ کسی ملک کا وزیر اعظم نہیں ہو سکتا،وزراء صبح اٹھتے اور رات سوتے تک گالی گلوچ کرتے ہیں، ہم کہتے ہیںآپ نے عوام کومہنگائی سے مار کر رکھ دیا ہے تو اس کا جواب بھی گالی میں دیتے تھے۔

ہمیں کہتے تھے کہ ہمت ہے توتحریک عدم اعتمادلا کر دکھائو تو جب لے کر آئے ہیں ان کی زبانیں ان کے منہ کے اندر نہیں جارہیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے بھائیوں سے کہنا ہے کہ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہوگا اگر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہیں تو ہمیں بھی کسی کے تحفظ اور احترام کرنے کی ضرورت نہیں ۔ پیپلزپارٹی ببانگ دوہل پیغام دے رہی ہے تو اب کسی کی پگڑی اچھالنے کی کوشش کی تو نہ کسی کی پگڑی اور نہ دوپٹہ محفوظ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ بڑے مقصد کے لئے جو کچھ کرنا پڑیں گے، ہمیں اپنے دشمنوں اور دوستوں کا پتہ ہے ہمیں اپنی جدوجہد کا بھی پتہ ہے صرف تعین کرنا ہے کس وقت کیا لڑائی لڑنی ہے ، بلاول بھٹو واضح کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ، ہم آج بھی بھٹو کی مخالف سوچ کے خلاف لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے۔سمیع اللہ خان نے کہا کہ یقین دلاتے ہیں اب جونیا سیٹ اپ آئے گا یہ سیٹ اپ چھ ماہ سال ڈیڑھ سال کا ہو لیکن کارکردگی عثمان بزدار کے ساڑھے تین سال سے کئی گنا بہتر ہو گی ۔ جہاں تک اتحاد کی بات ہے ،یہ تاریخ ہے کہ بڑے مقصد کے لئے اتحاد بنتے رہے ہیں، (ق) ہماری ہمارے ساتھ ہو گی ،جولینا دینا ہے وہ آنے والے دنوں میں سامنے آ جائے گا۔

موضوعات:



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…