عورت مرد کو تھپڑ مارنے کے بعد ایک سیکنڈ کے لیے رکتی ہے اور کہتی ہے، ہمت مت کرنا،ڈرامہ لاپتہ کے وائرل کلپ پر شرمیلا فاروقی کا تبصرہ

15  ستمبر‬‮  2021

کراچی(این این آئی)حال ہی میں ایک پاکستانی ڈرامہ کا ایک منظر سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا دکھایا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے کلپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جھگڑے کے دوران شوہر نے اپنی بیوی کو تھپڑ مارا لیکن اگلے ہی لمحے عورت پوری قوت سے مرد کو جوابی تھپڑ مارتی ہے۔اسی کلپ میں مزید دیکھا جاسکتا ہے کہ

عورت مرد کو تھپڑ مارنے کے بعد ایک سیکنڈ کے لیے رکتی ہے اور کہتی ہے، ہمت مت کرنا! میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔یہ کلپ ڈرامہ لاپتاکی 12ویں قسط کا حصہ ہے اور پچھلے ہفتے ہم ٹی وی پر نشر ہوا، جس کے بعد سے یہ سین سوشل میڈیا پر موضوع بحث ہے جس میں دانیال کا کردار مرزا گوہر رشید نے پیش کیا ہے جبکہ فلک کا کردار اداکارہ سارا خان نے ادا کیا ہے۔اس حوالے سے اداکار مرزا گوہر رشید نے بھی انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ٹی وی پر تشدد دیکھنا پسند نہیں۔ اس لیے میں کم از کم اپنے کرداروں میں اس طرح کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے لیکن ٹی وی پر تشدد دکھانا ہمارے معاشرے کا عام حصہ بن چکا ہے۔ عورت سے تفرت آمیز رویہ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اس ہی کی آڑ میں عورت کو تھپڑ مارنا کوئی بری بات نہیں، جس طرح لاپتہ کی گزشتہ قسط میں دانیال نے کیا۔انہوں نے کہا کہ آپ کو عجیب لگے گا لیکن یہ تھپڑ والے سین کی وجہ سے ہی میں نے اس کردار کا انتخاب کیا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ جبر انسان اپنی مرضی سے کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر کوئی ذہنی کمتر آدمی آپ پر اپنے بازئوں کا زور آزمائے تو آپ بغیر کسی خوف کے وہی کریں جو فلک نے کیا۔ ایک کرارا تھپڑ بہادر عورت کی طرف سے اس کمزور آدمی کو مارنا، عورتوں کے لیے ایک بڑا قدم ہوگا۔گوہر رشید کی پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کی

رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ جبر ایک مرضی نہیں مجبوری ہے۔ ہزاروں عورتیں روزانہ ظلم کا شکار ہوتی ہیں اس لیے نہیں کہ وہ ان کی مرضی ہے بلکہ وہ ان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ جوابی وار یا اپنے شوہر کو چھوڑ نہیں سکتیں۔انہوں نے کہا کہ ازدواجی ریپ، گھریلو تشدد ، تیزاب کا شکار اور بچپن کی شادیاں ہمارے معاشرے کی وہ برائیاں ہیں جو پھیلی ہوئی ہیں۔شرمیلا فاروقی نے کہاکہ متاثرہ خواتین جسمانی اور مالی طور پر بے بس ہوتی ہیں، وہ خاموشی سے سب برداشت کرتی ہیں اور جو ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہیں ان کو یا تو خاموش کرادیا جاتا ہے ،متاثرہ خاتون پر الزام تراشی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…