گیس طلب سے زیادہ ہو گئی، گیس پائپ لائنز پر خطرناک دباؤ، پھٹنے کا خطرہ

22  جولائی  2019

اسلام آباد(آن لائن) بجلی بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے مطلوبہ مقدار سے کم گیس لینے کے باعث ملک میں گیس پائپ لائن کے نیٹ ورک کو ’ہنگامی صورتحال‘ کا سامنا ہے۔گیس فراہم کرنے والے نیٹ ورک سے منسلک ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’یہ بہت خطرناک صورتحال ہے کیوں کہ مائع قدرتی گیس کے دونوں ری گیسفکیشن ٹرمینلز کے آف لوڈنگ پوائنٹ پر پائپ لائن میں الٹی سمت شدید دباؤ پڑ رہا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ اتوار کی صبح گیس سسٹم شروع ہوتے وقت لائن میں 4 ہزار 810 ملین کیوبک فیٹ فی دن (ایم ایم سی ایف ڈی) گیس بھری ہوئی تھی اور شام میں بند ہوتے وقت اس کی مقدار 4 ہزار 750 ملین کیوبک فیٹ روزانہ تھی۔ؔان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی غیر محفوظ سطح ہے گیس کی پائپ لائنز اور پروسیسنگ سسٹم خطرے میں ہے اور اگر بڑے صارفین گیس لینے کی مقدار میں اضافہ نہیں کریں گے تو یہ پھٹ بھی سکتی ہیں‘۔گیس صارفین میں سب سے زیادہ گیس بجلی بنانے والی کمپنیاں لیتی ہیں جس کی طلب کے باعث زیادہ تر ایل این جی درآمد کی جاتی ہے۔اس وقت توانائی کا شعبہ 670 ایم ایم سی ایف ڈی (مقامی اور درا?مدی) گیس استعمال کررہا ہے جبکہ مختص شدہ گیس کی مقدار ایک ہزار 160 ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔اسی طرح صنعتی شعبہ 250 ایم ایم سی ایف ڈی گیس حاصل کررہا ہے جبکہ مختص شدہ مقدار 300 ایم ایم سی ایف ڈی ہے۔اس ضمن میں جب پیٹرولیم ڈویڑن کے ترجمان شیر افگن سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ حالیہ بارشوں کے نتیجے میں گیس کی طلب میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے بجلی گھروں نے بجلی کی فراہمی میں کمی کی ہے۔اس سے گیس منتقلی کے نظام میں پائپ لائن میں دباؤ بڑھ رہا ہے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند روز میں پاور سیکٹر کی جانب سے گیس کا حصول 850-950 ایم ایم سی ایف ڈی سے کم ہو کر 650 ایم ایم سی ایف ڈی ہوچکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کو قابو میں کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کیوں کہ ’یہ زیادہ دیر تک رک نہیں سکے گی‘۔

ایک اور اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ سوئی سدرن گیس پائپ لائنز لمیٹد (ایس ایس جی پی ایل) اور سوئی نادرن گیس پائپ لائنز کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) باقاعدگی سے وزارت توانائی کے لوڈ مینجمنٹ اجلاس میں بجلی گھروں کی جانب سے کم گیس لینے کی نشاندہی کرتی رہی ہیں۔اس بارے میں وزارت توانائی کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیٹرولیم ڈویڑن بغیر کسی متبادل منصوبہ بندی کے کام کررہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کی طلب 850 ایم ایم سی ایم ڈی تھی لیکن کبھی کبھی وہ 900 سے ایک ہزار ایم ایم سی ایم ڈی تک گیس وصول کرتے ہیں۔چنانچہ طلب میں کمی کی صورت میں گیس نیٹ ورک کے پاس گیس کی اضافی گنجائش کو جذب کرنے یا اسے دیگر کسی اور جگہ منتقل کرنے یا ایل این جی کی ریگیسفکیشن کچھ روز تک روکنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

موضوعات:



کالم



بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟


’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…