لاہور (نیوزڈیسک) امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ حکومت پنجاب کا اتنی ساری عدالتوں اور سارے نظام کی موجودگی کے باوجود گولی سے فیصلہ کرنا مبنی بر انصاف نہیں ،پو لیس کا فرض تھا کہ ملک اسحا ق کو گرفتار ی کے بعد عدالت میں پیش کیا جا تالیکن آخرایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ پنجاب حکومت معاملے کی انکوائری کرائے اور وضاحت کرے ،پولیس حراست میں کسی کا ماراجانا قانون شکنی کی بدترین مثال ہے ،اس پر تمام جمہوریت پسندوں کے تحفظات ہیں ،اگر ملک اسحق اور اس کے ساتھیوں کو پولیس نے اپنی حراست میں مارا ہے تو قانون کا احترام کرنے والا کوئی شہری بھی اسے پسند نہیں کرے گا ،انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہئے تھا ،ملاعمر کی موت کے بعد طالبان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، وہ بہت منظم ہیں ،ہم افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ پر امن افغانستان پاکستان کی ضرورت ہے ،تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کا معاملہ ایک نا ن ایشو کو ایشو بنایا جا رہا ہے ، یہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہی ثابت ہوگا، یہ ایک عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے ،اگر (ن) لیگ نے ایسا کیا تو وہ خود ہی اپنے لیے مزید انتشار پیدا کر ے گی،ایم کیو ایم کو شش کربھی لے تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ اسمبلی میں ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں منعقدہ اسلامی جمعیت کے اراکین کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگوکے دوران کیا ۔تقریب میں امیر جماعت اسلامی لاہور میا ں مقصود احمد، قیم پنجاب نذیر احمد جنجوعہ ، نائب امیر ضلع لاہور ذکر اللہ مجاہد، خلیق احمد بٹ ، انجینئر احمد سلمان اور اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے عہدیداران کی کثیر تعدا دنے شرکت کی۔ سراج الحق نے کہا کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کے سکڑنے کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں ؟ہمیں اسے مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔اس کیلئے نوجوانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں اس ملک کو قائد اعظم کا پاکستان بنا نے کیلئے اللہ کی راہ میں نکلنا ہوگا۔میں سر ہتھیلی پر رکھ کر اس نظام سے دو ہاتھ لینے کیلئے میدان میں کھڑا ہوں ۔خون کے آخری قطرے تک پاکستان میں اسلامی انقلاب کیلئے جدوجہد کرتا رہوں گا۔اس ملک کے سیاستدان سانپ اور بچھوﺅں سے بھی زیادہ زہریلے ہیں ، وہ اس ملک کو کھا رہے ہیں۔ان حالات میں پاکستان کیلئے اسلامی انقلاب ہوا ، پانی اور سورج سے بھی زیادہ ضروری ہو چکا ہے ۔ہما رے سیاستدان رہتے ادھر ہیں لیکن ان کا دل لندن میں دھڑکتا ہے ۔اللہ کے کرم سے جماعت اسلامی کے کسی رکن پر دوسری جماعتوں کی طرح کرپشن یا پلاٹوں پر قبضے کے الزامات نہیں ہیں۔لیکن باقی تمام پارٹیوں میں ایک تماشا لگا ہوا ہے ۔ جیسے ہی ایک پارٹی کی مارکیٹ ڈاﺅن ہوتی ہے لوگ اسی رات ہی دوسری پارٹی کا جھنڈا اپنے گھر پر لہرا لیتے ہیں۔صرف رنگ بدلے ہیں ، سانپ وہی ہیں ۔ ہمیں ان سانپوں کا علاج کر نا ہے ۔جو اس ملک پر مسلط ہو چکے ہیں ۔ہم اس ملک میں ان ظالموں کا نظام نہیں بلکہ ایک اللہ کا نظام چا ہتے ہیں۔ ایک نصاب چاہتے ہیں ۔آئیں مل کر اسلامی نظام کیلئے جدوجہد کریں ۔میڈیا سے گفتگو کر تے ہوئے انہوں نے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے سابق سربراہ ملک اسحاق کی ہلاکت کے حوالے سے کہا کہ ہم کسی بھی مسلح کارروائی کی حمایت نہیں کرتے ، حکومت پنجاب کا اتنی ساری عدالتوں اور سارے نظام کی موجودگی کے باوجود گولی سے فیصلہ کرنا مبنی بر انصاف نہیں ۔ پنجا ب پو لیس کا فرض تھا کہ ملک اسحا ق کو گرفتار ی کے بعد عدالت میں پیش کیا جا تا۔ آخرایسا کیوں نہیں کیا گیا ؟ حکومت پنجاب اس معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کر ے کہ آخر کس نظام اور اصول کے تحت ملک اسحاق کو ہلاک کیا گیا ہے؟ ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ملا عمر کی موت کے بعد بھی طالبان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ بہت منظم ہیں ۔ انہوں نے اتنے سال تک کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا کہ ملا عمر زندہ ہے یا مرگیا۔وہ اس کی موت کے بعد بھی کسی انتشار میں نہیں آئیں گے۔ان کی اپنی ایک مجلس شوریٰ ہے ۔ہم افغان طالبان کے ساتھ مذاکرا ت کی حمایت کرتے ہیں ۔کیونکہ پر امن افغانستان پاکستان کی ضرورت ہے ۔ اسلام آباد اور کابل کا مستقبل ایک ہے ۔یہ دوجسم ایک جان ہیں ۔ان مذاکرات کو بھارت کی جانب سے سبوتاژ کرنے کی بہت کو شش کی گئی لیکن اسے کامیابی نہیں ہوسکی ۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں پاکستانیوں کو ہمیشہ سیاسی پھانسیاں دی جاتی رہیں اسی طرح یعقوب میمن کو بھی سیاسی پھانسی دی جا رہی ہے جو کہ سرا سر غلط ہے ۔ اس کے علاوہ ایک خاتون پر بھی مختلف الزامات لگائے جا رہے ہیں ۔ ہم ان تمام معاملات کی سخت مذمت کرتے ہیں ۔بھارتی حکومت تو ہم سے اتنی ڈری ہوئی ہے کہ وہ تو ایک فاختہ پر بھی پاکستان کا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگا دیتی ہے ۔جو قوم پرندے سے ڈرتی ہے وہ ہمارے جیسے بہادر ملک کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے ؟۔قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کے سوال کے جواب میں سراج الحق نے کہا کہ یہ ایک نا ن ایشو کو ایشو بنایا جا رہا ہے ، یہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مترادف ہی ثابت ہوگا، یہ ایک عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ صرف سیاستدانوں کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اب ماضی کو بھول کر آنیوالے کل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ن لیگ نے ایسا کیا بھی تو وہ خود ہی اپنے لیے مزید انتشار پیدا کر ے گی۔ تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے میں ایم کیو ایم کو شش کربھی لے تو کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ اسمبلی میں ان کی تعداد بہت کم ہے۔میں نے وزیر اعظم کو بھی یہی رائے دی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر جماعتوں کے تحفظات دور کریں تاکہ صورتحال انتشار کی طرف نہ جائے ۔ یہ نہ ہو کہ کل کو یہی وزیراعظم کہیں کہ ہمیں تو کام ہی نہیںکرنے دیا گیا ۔ مدت ہی پو ری نہیںکرنے دی گئی ۔