ریاست کے تین ستون ہوتے ہیں‘ پارلیمنٹ‘ جوڈیشری اور ایگزیکٹو‘ پارلیمنٹ کا کام قانون بنانا ہوتا ہے‘ عدلیہ اس قانون کی تشریح کرتی ہے اور اس کے مطابق فیصلے کرتی ہے جبکہ انتظامیہ کا کام پارلیمنٹ اور عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد ہوتا ہے‘ یہ تینوں ستون اگر اپنی جگہ رہ کر کام کرتے رہیں
تو ریاست چلتی رہتی ہے لیکن اگر یہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں یا اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کا کام شروع کر دیں تو ریاست کا ڈھانچہ بیٹھ جاتا ہے‘ ہماری موجودہ حکومت بار بار یہ غلطی کر رہی ہے، میاں نواز شریف کو علاج کے لیے باہر بھجوانے کا ایشو کابینہ میں پیش ہوا‘ حکومت نے شریف فیملی سے پونے چار ارب روپے کے شورٹی بانڈ کی شرط رکھ دی‘ یہ پاکستان کی ہسٹری میں اس نوعیت کا پہلا فیصلہ ہے‘ زر ضمانت‘ شورٹی بانڈز یا مچلکے عدالتیں لیا کرتی ہیں‘ یہ ایگزیکٹوز یا کابینہ کا کام نہیں ہوتا لہٰذا کابینہ شورٹی بانڈ لینے کے بعد عدالت بن جائے گی اور یہ ایک نئے قانونی اور آئینی بحران کا نقطہ آغاز ہو گا‘ حکومت کو یہ بحران پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ اجازت دے یا نہ دے‘ یہ اگر‘ مگر‘ چونکہ‘ چنانچہ کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ کھانے کے لیے چٹنی یا اچار کی شرط رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کو اس قسم کے نادر مشورے کون دے رہا ہے، مولانا فضل الرحمن اپنا پلان بی شروع کر رہے ہیں، یہ پورے ملک کی مرکزی شاہراہیں بھی بند کریں گے اور تجارتی راستے بھی‘ کیا حکومت اس کے لیے تیار ہے؟